ارکانِ حج کی تشکیل و تکمیل بھی خاتون کی مرہونِ منت ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا اسلام میں خواتین کی تکریم و اہمیت پر خصوصی خطاب

مرتّبہ: نازیہ عبدالستار

انسانی کائنات کرّئہ ارضی پر مرد کی وجہ سے نہیں بلکہ عورت کی وجہ سے آباد ہوئی ہے اگر حضرت حوا نہ ہوتیں تو آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر نہ آتے انسانی نسل جنت میں رہنے کو ترجیح دیتے اور نسل انسانی کو فروغ نہ ملتا۔ پس اس دنیائے انسانیت کی آبادی کا سارا سہرا خاتون کو جاتا ہے۔

اگر ہم آقا علیہ السلام کی بعثت سے قبل کی تاریخ دیکھیں تو اُن میں بھی خواتین کانمایاں ذکر موجود ہے۔ مثلاً:

  • سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں سورہ ہود میں آتا ہے۔ جب کفر، ظلم اور حق کا انکار بہت بڑھ گیا تو اللہ رب العزت نے نوح علیہ السلام سے فرمایا: ایک کشتی تیار کرو جب کشتی تیار ہو گئی تو سوال ہوا کہ اب اس میں کون سوار ہوں گے؟

قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ.

ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جنس میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو۔

هود، 11: 40

یعنی فرمایا سارے جوڑے برابری کے ساتھ اس میں سوار کرائیں اور لے کے چلیں گویا جو پہلا سفر خیر کے لیے ہوا۔ تفاسیر میں آتا ہے کہ جانور الگ تھے، 40مردوں اور 40 عورتیں کل 80 افراد اُس کشتی میں شامل ہوئے۔ اسلام کی صحیح تعلیم بھی یہی ہے کہ نر و مادہ کی برابر شمولیت ہونی چاہیے کیونکہ سوسائٹی اس کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتی۔

  • اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ مسلمان حج پر جاتے ہیں صفا مروہ کی سعی کرتے ہیں جس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ ارکانِ حج کی تشکیل و تکمیل بھی خاتون کی مرہون منت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون خاتون ہے؟ جواب ہے کہ وہ حضرت سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان کے معصوم بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ گئے۔ جہاں نہ پانی نہ کوئی سایہ اور نہ کھانے پینے کا سامان تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ.

اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام ) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے۔

ابراهیم، 14: 37

میں یہاں حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا و حضرت اسماعیل علیہ السلام آباد ہوئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو تب معصوم بچے تھے حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا نے شہر مکہ آباد کروایا۔ مکہ شہر جس میں کعبۃ اللہ بنا اس شہر کی آبادی کا سہرا بھی خاتون کو حاصل ہے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تو حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ دو پہاڑیوں پر سات چکر لگائے اُن کا چکر طواف کے بعد حج کا رکن سعی بن گیا۔ اب حاجی سعی صرف حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا کی دوڑنے کی سنت پوری کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اُس ایک خاتون مقدس کے اس ایک عمل کو اتنا محفوظ کیا کہ اُس کو حج کا حصہ بنا دیا اس رکن کے بغیر کبھی حج کی تکمیل نہیں ہوتی۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا: کہ یہ بھی احسان ہے ہماری ماں ہاجرہ سلام اللہ علیہا کا اگر وہ پانی کے چشمے کو زَم زَم نہ کہتیں تو پانی چلتا رہتا اور ساری زمین پانی سے بھر جاتی گویا جزیرئہ عرب اور انسانوں کو اُس پانی میں ڈوبنے سے بچایا بھی خاتون نے ہے وہ چشمہ بن گیا۔

  • حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید کی سورہ ہود میں آتا ہے۔ ملائکہ حضرت لوط کی قوم پر اُن کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب کے لیے آئے۔ اور قرآن مجید میں آتا ہے:

وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً.

اور (اپنے) دل میں ان سے کچھ خوف محسوس کرنے لگے۔

هود، 11: 70

حضرت ابراہیم علیہ السلام ابتداً سمجھے کہ شاید میری قوم کے لیے آئے ہیں۔ تو آپ کو بشری تقاضوں کے پیش نظر تھوڑا سا خوف محسوس ہوا۔ فرشتوں نے کہا گھبرائیں نہیں ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لیے آئے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے:

وَامْرَاَتُـهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِکَتْ.

اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں۔

هود، 11: 71

اُس موقع پر فرشتوں کا آنا، عذاب کی بات سننا یہ ساری چیزیں ایک خوف کی کیفیت پیدا کرتی ہیں مگر حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کی جوانمردی، جرات مندی، کردار کی مضبوطی دیکھئے کہ وہ اُس حالت میں بھی ہنس رہی ہیں یہ اُن کی جرات ہے۔ اسی طرح انہیں فرشتے نے بشارت دی کہ آپ کا بیٹا اسحاق علیہ السلام ہو گا اور اُن کا بیٹا یعقوب علیہ السلام ہو گا۔

اب اگر قرآن مجید کے اس مقام کو یوں دیکھا جائے تو بیٹا ماں اور باپ دونوں کا ہی ہے لیکن اللہ رب العزت مبارکباد باپ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کو نہیں دے رہا وہ حضرت سارہ (خاتون) کو دے رہے ہیں جس کا مقصود ان کے وجود کو متعارف کروانا تھا۔

قرآن مجید کا یہ جو اسلوب ہے کہ بشارت شوہر کو نہیں دی بلکہ بیوی کو دی ہے، اس کے پیچھے ایک پاکیزہ خیال ہوتا ہے کہ اُس امت میں خواتین کی اس حیثیت کا اعتراف کیا جائے قرآن کے مطابق خاتون کا یہ کردار اگر آج بھی اسی طرح ادا ہو تو یہ پیغمبرانہ سنت ہے۔

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والدِ گرامی کا نام تھا موسیٰ بن عمران اور والدہ کا نام یَخَابَضْ/ یُخَابَضْ آیا ہے۔ جب بچپن میں خطرہ ہوا کہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کروا دے گا تو اللہ رب العزت نے اس مقام پر خطاب باپ کو نہیں کیا بلکہ(حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو کیا۔ جس سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ اللہ پاک نے والدہ کے مقام کو اہمیت دی اور فرمایا:

وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی.

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی۔

(القصص، 28: 7)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو پیغام بھیجا کہ گھبرائیں نہیں آپ دودھ پلاتی رہیں اور جب آپ کو خطرہ محسوس ہو کہ فرعون کو پـتہ چل گیا ہے تو پھر آپ موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل میں ڈال دینا۔

فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ.

انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتحال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا۔

القصص، 28: 7

یہاں اس ایک مقام پر تین خواتین کے کردار کا ذکر ہے اور کسی مرد کا ذکر نہیں ہے۔

  1. پہلا کردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ہے۔
  2. دوسرا کردار فرعون کی زوجہ (حضرت آسیہ بنت مزاحم) کا ہے۔

جب صندوق محل کے قریب پہنچا تو یہاں قرآن مجید میں فرعون کا ذکر نہیں آیا بلکہ حضرت آسیہ علیہا السلام کا آیا۔

وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ.

اور فرعون کی بیوی نے (موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لیے ٹھنڈک ہے۔

القصص، 28: 9

یہاں فرعون اور آسیہ علیہا السلام کے درمیان مکالمہ میں سے خاتون کی بات کو بیان کیا گیا ہے یعنی عورت کے کردار کو نمایاں کر کے بتایا ہے۔ بیٹا گود میں ہے اور خاتون کہہ رہی ہے کہ شاید اس سے ہمیں فائدہ پہنچے، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں۔

تیسرا اہم کردار اسی مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ کا ہے۔

آپ کی ہمشیرہ کا نام حضرت مریم تھا۔ یہ مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں۔

وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِز فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا یَشْعُرُوْنَo

اور (موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھے۔

القصص، 28: 11

یعنی حضرت موسیٰ کی والدہ نے اُن کی بہن کو کہا کہ تمہاری ڈیوٹی یہ ہے کہ پیچھے اطراف سے چھپ چھپ کے دیکھتے رہنا، یہ بچہ دودھ کسی اور کا نہیں پیئے گا، جب وہ پریشان ہو جائیں کہ کسی کا دودھ نہیں پیتا اور تڑپیں۔ تم کہہ دینا کہ میں ایک خاتون تمہیں بتاتی ہوں شاید اُس کا دودھ پی لے تو اس کی ماں اس بہانے پہنچ جائے گی۔

بڑی عجب بات ہے کہ خواتین کے کردار کو قرآن نے کتنا اہم کیا ہے۔

  • پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر آتا ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کچھ عرصہ پناہ لینے کے لیے مصر سے گئے تو چشمے پہ پہنچے ہیں جہاں ہجوم تھا۔ جانوروں کوپانی پلایا جا رہا ہے اور لوگ پانی بھر بھر کے لے جا رہے ہیں وہاں بھی دو خواتین کا ذکر آیا ہے شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں کھڑی ہیں پانی بھرنے کے لیے۔ موسیٰ علیہ السلام ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ پانی کیوں نہیں بھرتیں؟ کہتی ہیں ہم اس ہجوم میں نہیں آتیں جب وہ فارغ ہو جائیں گے تو ہم بعد میں پانی بھر لیں گی پھر موسیٰ علیہ السلام نے اُن کو پانی بھر کے دیا۔ پھر قرآن نے ذکر کیا ہے۔

وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ.

اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں۔

القصص، 28: 23

وہاں بھی خاتون کا کردار ہے۔

  • عیسیٰ علیہ السلام کے تو والد نہیں تھے لہٰذا پورا کردار اُن کی والدہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا آتا ہے۔

قرآن مجید کی 114 سورتیں ہیں، اُن میں سے 2 سورتوں کے نام خاتون کے نام رکھے گئے ہیں ایک سورۃ النساء اور ایک سورۃ مریم۔ باقی رہ گئیں 112 ان میں سے ایک سورت بھی (غیر نبی) مرد کے نام پر نہیں رکھی گئی۔ ہاں سورۃ الانسان ہے۔ انسان تو سب کے لیے برابر ہے۔ عمران پیغمبر کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔ سورۃ الانبیاء بھی ہے۔ نبی کو مستثنیٰ کر دیا۔ آل عمران فیملی کو کہتے ہیں جس میں بیٹے بیٹیاں سارے شامل ہیں۔ جبکہ اُس معاشرے میں قرآن نازل ہوا جہاں خواتین کے مقام کو سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ بچی پیدا ہو گئی تو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیتے تھے۔ عورت وراثت کا مال تھی اُس کے حقوق نہیں تھے، انسان نہیں تھی۔ برابری کا تصور نہیں تھا اُس کے لیے قانون نہیں تھے۔ یعنی ایسی سوسائٹی تھی جہاں ضرورت تھی کہ اللہ رب العزت حضور علیہ السلام پر جو وحی اتاریں اس عورت کی عزت، احترام اور کردار کو اتنا نمایاں کریں کہ سوسائٹی کی روایات تبدیل ہو جائیں۔ پھر عورت کو اللہ رب العزت نے اپنا کردار ادا کرنے میں برابری دی ہے۔

برابری تخلیقی وحدت کی شکل میں قرآن نے بیان کی ہے۔

یٰٓـاَاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدا) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔

النساء، 4: 1

غرض قرآن پاک کی رو سے خواتین کا کردار انبیاء کی جدوجہد میں اہم رہا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرہ میں عورت کو صرف کھانا بنانے، بریانی، گوشت اور پلاؤ بنانے، برتن دھونے، گھر کی دیکھ بھال، بچوں کے کپڑے استری کرنے اور سکول پہنچانے کے لیے رکھا ہوا ہے جبکہ یہ قرآن و حدیث نے کہیں عورت کے فرائض اور واجبات میں یہ چیزیں بیان نہیں کیں۔ عورت اگر یہ کام کرتی ہے تو مرد پر احسان کرتی ہے ورنہ وہ ان چیزوں کا خود ذمہ دار ہے۔ عورت کی شرعی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے۔ اس لیے جب آقا علیہ السلام ازدواجی زندگی میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے۔

قرآن مجید نے اس کے بعد ارشاد فرمایا:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.

اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں۔

البقرة، 2: 228

مغربی دنیا میں جو کام خواتین دفاتر میں کر رہی ہیں اتنا مرد نہیں کر رہے۔ جس جگہ جائیں عورت receptionist ملے گی۔ خاتون زیادہ بہتر طریقے سے مردوں کے مقابلے میں بزنس ڈیل کرتی ہے اس طرح کوئی بھی فیلڈ ہو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروکار لاکر بہتر کاکردگی دکھاتی ہیں۔

قرآن مجید نے اس چیز کو کئی مقامات پہ بیان کیا۔ مثلاً کہا:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ.

بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔

الأحزاب، 33: 35

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں۔

اللہ تعالیٰ نے سارے مقام اس ایک آیت میں اکٹھے بیان کر دئیے ہیں اور ہر کردار میں قرآن نے مرد و عورت کو جوڑے کے طور پہ پوری آیت میں بیان کیا ہے جو یہ متعین کرتا ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں کہ کس طرح عورت برابری کی سطح پر سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کرے۔

جب حضور علیہ السلام پر درج ذیل وحی اتری تو لامحالہ گھر میں ہی بیٹھے ہوتے تھے خواہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، کا ہے یا آپ کی کسی اور زوجہ کا۔ قرآن مجید خواتین کے مقام کو بیان کرتا ہے:

وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ ﷲِ وَالْحِکْمَةِ.

اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو۔

الأحزاب، 33: 34

درج بالا آیت میں وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اتری ہے اور ذکر کیا جا رہا ہے خواتین (ازواج مطہرات) کا کہ جو تمہارے گھروں میں پیغام آئے ہیں اُن کو یاد کرو یعنی حضور علیہ السلام کے گھروں کو اُن کی ازواج کے ساتھ نسبت دے کر اُن کے مقام کو اہمیت دی۔

اللہ تعالیٰ نے امت کی جتنی فضیلتیں بیان کیں اُس میں مرد اور عورت برابری کے ساتھ شامل ہیں۔ اس کی دلیلیں دو ہیں۔ ایک وہ فضائل جو امت کے ہیں تو امت صرف مردوں کی ہی نہیں ہے عورتوں کی بھی ہے۔ اور دوسرا فرمایا:

وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ.

اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

ایمان عورتوں پر بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں پر ہے۔ گویا تمام فضائل جو امت کے آئے عورتیں اُن کے ساتھ اُسی طرح بہرہ یاب ہیں جس طرح مرد ہوئے۔ اس طرح قرآن نے کہا:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ.

اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔

(التوبة، 9: 71)

گویا سوسائٹی باہمی تعلق سے چلتی ہے، اُس میں فرمایا: مرد اور عورتیں برابر باہمی تعاون کے ساتھ اس امت کے فرائض کو ادا کرنے والے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں جو پہلی شہادت ہوئی وہ حضرت سمیعہ رضی اللہ عنہا کی ہے جب آقا علیہ السلام نے عقبہ میں بیعت کی۔ ہجرت مدینہ سے پہلے جو وفد آیا جن کو trainer بنا کے بھیجا تا کہ مدینہ کی فضا ہموار کریں اُس وفد میں بھی خواتین شامل تھیں جو آقا علیہ السلام سے بیعت کر کے تعلیم لے کر گئیں۔

جب جہاد ہوتے تو اس جدوجہد میں عورتیں شریک ہوتیں۔ سفر و حضر میں عورتیں شریک ہوتیں۔ مسجد نبوی اُس وقت ہر قسم کی سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر تھی اور رات دن اس کا دروازہ خواتین کے لیے دروازہ کھلا رہتا اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: خبردار! کوئی شخص خواتین کو میرے اس مرکز پر آنے سے منع نہ کرے۔

حضور علیہ السلام تعلیم دیتے تو صحابہ کے ساتھ صحابیات بھی بیٹھتی تھیں۔ نماز پڑھتے تو خواتین شریک ہوتیں۔ صفوں میں چھوٹے بچے پیچھے بیٹھے ہوتے۔ کسی چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آتی تو حضور علیہ السلام نماز کو مختصر کر دیتے تھے کہ اُس کے رونے سے اس کی ماں کا دل دکھ رہا ہوگا۔ ہر معاملات میں خواتین کا پورا ایک کردار ہوتا۔ خواتین جہاد پر جاتیں تو سکیورٹی کی ڈیوٹی دیتیں احد، خندق اور بدر میں مریضوں کی تیمارداری کرتیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، حنین اور احد میں حضور علیہ السلام کا دفاع کر رہی تھیں۔

اور تعلیم کے اعتبار سے بھی پھر وہ اپنا کردار ادا کرتیں۔ جب حضور علیہ السلام کی احادیث آگے پہنچائیں تو اُن میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے 2200 سے زیادہ آپ کی مرویات تھیں اور 100 صحابہ کے قریب آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودا رضی اللہ عنہا نے علم کو آگے پہنچایا۔ 700 سے زیادہ صحابیات ہیں جنہوں نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت تک پہنچایا۔ بخاری اور مسلم سمیت کئی احادیث کی کتب میں ان کی مرویات شامل ہیں۔

آگے صحابیات کے بعد تابعات میں عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہا، ام علی تقیہ رضی اللہ عنہا، ام محمد زینب رضی اللہ عنہا، خلدیہ بنت جعفر رضی اللہ عنہا الغرض ایک طویل فہرست ہے۔ امام عسقلانی کہتے ہیں: امام بخاری کی اسانید میں اُن کی شیخ خواتین ہیں۔ ابوداؤد اور ترمذی میں خاتون شیخ سے سندیں لی ہیں۔ حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا مصر میں محدثہ تھیں۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر اُن کا درس حدیث سن کے نوٹس لیتے تھے اور بڑی بڑی خواتین عمر بھر سفر کرتی تھیں اور ہزاروں مرد علماء، محدثین، فقہاء کئی محدثہ خواتین کی مجالس میں شریک ہو کے علم لیتے۔ 80 خواتین امام ابن عساکر کی استاذ ہیں جن سے یونیورسٹیز آباد تھیں یہ ہزار سال پہلے کی تاریخ ہے۔ اسلام چلا ہی اس طریق سے تھا۔ حضور علیہ السلام نے مدینہ پہنچ کر تعلیم کا جب نظام وضع کیا تو لکھنے اور پڑھنے کے لیے استاد مقرر کیے۔ بلازری ایک تاریخ دان ہے وہ لکھتے ہیں کہ مرد 50% اور عورتیں 50% تھیں جن کے لیے آقا علیہ السلام نے پڑھانے اور لکھانے کا بندوبست کیا تھا۔

اسلام کی تاریخ حضور علیہ السلام کے دور میں برابری کے تصور سے شروع ہوئی تھی۔ عورتوں کے حلقات تھے۔ اور وہ اسلام کے کلچر، تعلیم، سائنسی ایجادات اور روحانیت کو فروغ دینے میں برابر حصہ لیتی رہی ہیں اور ذمہ داریاں حضور علیہ السلام نے مقرر کی تھیں۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دفاتر قائم کئے۔ خواتین ان کی انچارج تھیں وہ رپورٹ دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی ممبر تھیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک قانون لانے لگے کہ مہر کی حد متعین کر دیں تو خاتون نے کہا: اے امیر المومنین! قرآن نے اس کی حد متعین نہیں کی۔ آپ کون ہوتے ہیں کرنے والے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا بل واپس لے لیا۔ اور کہا:

أصابت امرأة وأخطأ عمر.

(قرطبی، تفسیر، 5: 99)

عمر خطا کھا گیا اور عورت صحیح نتیجے پر پہنچی۔

مغربی دنیا پچھلی صدی تک عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیتی تھی جبکہ 1400 سال قبل مدینہ میں عورتیں پارلیمنٹ کی ممبر تھیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج خواتین اسی طرح اپنا تاریخی کردار ادا کریں، لیڈر بنیں تاکہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اگلی نسلوں کو سنوارنے میں پہلے سے بھی بہتر کردار ادا کر سکیں۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2018

تبصرہ