امن تکریمِ بنی آدم میں ہے

مومنہ ملک

اسلام سے قبل دنیا کے مختلف مذاہب، تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کے مقام و مرتبہ کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورت ہر معاشرہ اور مذہب میں معاشی و معاشرتی اور سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسلام سے قبل مسیحیت اور یہودیت میں بھی ان کی دینی تعلیمات کے برعکس عورت کو ذلیل و حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح اگر مختلف تہذیبوں کو دیکھا جائے تو ان میں بھی عورت کو کوئی حیثیت اور مقام حاصل نہیں تھا۔ یونانی، ایرانی، رومی اور دیگر تہذیبوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کم تر در جہ دیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ تاریخ عالم کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ صفحہ ہستی کی تمام قوموں اور مذاہب نے نہ صرف عورت کے حقوق کی پامالی کی بلکہ وہ اس کے وجود کی نفی کے بھی قائل تھے۔ حقوق انسانی کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دور جدید میں حقوق انسانی کا شعور اسلام کی عطا کردہ آگہی اور تکریم انسانیت کا مرہون منت ہے۔ ظہور اسلام سے قبل دسویں صدی تک یورپ تہذیبی زوال کے اندھیروں میں گم تھا، انسانیت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ انسانی حرمت و عصمت اور اس کے بنیادی حقوق کا تصور بھی محال تھا۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنی آمد کے ساتھ ہی انسانی مساوات کا درس دیا اور لوگوں کو ایک خدا کی طرف بلایا اور واضح انداز میں قرآن مجید میں اعلان کیا:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ.

’’اور تحقیق ہم نے بنی آدم کو تکریم بخشی ‘‘

بنی اسرائیل، 70:17

اسلام دین فطرت ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی عزت و احترام کی تعلیم دیتا ہے، تاکہ معاشرے میں امن و محبت کو فروغ ملے، اور حقوق کی پامالی نہ ہو۔ اسی فطری اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے ’’عورت‘‘کو خصوصیت کے ساتھ حقوق عطا فرمائے کیونکہ قبل از اسلام دیگرمعاشروں کی طرح عرب معاشرے میں بھی عورت مظلوم و مقہور رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عورت اور مردکے درمیان تخلیقی طور پر امتیاز روا رکھنا تھااور اسی بنا پر وہ فاسدعمارت کھڑی کی گئی جس میں عورت کو ذلیل ترین سمجھا گیا، عورت کو مرد کا غلام قرار دیا گیا اور عورت کو برائی کی جڑ اور شیطان کا گھر کہا گیا۔ مگر اسلام کی آمد کے ساتھ ہی عورت کو تکریم انسانی کے بنیادی اصول کی بنا ء پر حقوق عطا کیے گئے اور عورت کو وہ مقام و مرتبہ ملا جو اس سے قبل دیگر سامی ادیان میں بھی عورت کو نہ مل سکا، اسلام نے اس تخلیقی امتیاز کو مٹایا اور یہ بتایا کہ مرد اور عورت کی تخلیق کی بنیاد ایک ہی ہے۔ کسی کو کسی پر فضیلت یا فوقیت حاصل نہیں ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدا) ایک جان سے کی اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق ) کو پھیلا دیا‘‘

النساء، 01:04

اسلام نے عورت کو ظلم و ستم اور پستی کی گہرائیوں سے نکال کر عزت و عظمت کے درجات پر متمکن کیا۔ اسلام نے نہ صرف عورتوں کو عزت و تکریم دی بلکہ علم و عمل میں، تدبرمیں، بہادری اور شجاعت میں، الغرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں عورت کو بلند مقام دیا اور اس کے مساوی حقوق متعین کر کے ظلم و ستم اور تشدد سے تحفظ فراہم کیا۔

عصر حاضر میں اگرعورت کی سماجی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات قطعی شواہد کے ساتھ عیاں ہوتی ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عورت کو مرد سے کم تر مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ معاشرہ میں عورت سے کیا جانے والا سلوک زمانہ جاہلیت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے اور اسی ضمن میں اگر اسلامی ممالک کا جائزہ لیا جائے تووہاں کی صور تحال بھی دیگر ممالک سے کچھ مختلف نظر نہیںآتی۔ اسلام میں دیئے گئے حقوق کے مطابق آج بھی عورت کو وہ مقام ومرتبہ نہیں دیا جا رہا جو کہ اس کا حق ہے۔ اگرچہ دور جدید میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بیشمار اقدامات کیے گئے ہیں اور اس کے لئے بہت سی تنظیمیں بھی وجود میں آئیں، جن میںعورت فائونڈیشن، شرکت گاہ، اسلام آباد ویمن ویلفئیر ایجنسی، چرچ ورلڈ سروس پاکستان، افغانستان اور ورکنگ ویمن آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں شامل ہیں، ان تنظیموں نے تشدد، زنا، جنسی زیادتی اور نفسیاتی امراض جیسے کیسزکی طرف زیادہ توجہ دی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے مرکزی عمارت نیو یارک میں ’’کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن ‘‘ کا چالیسواں اجلاس (12 تا 22 مارچ 2014ء) منعقد ہوا، جس کے بیشتر پروگرامز عورتوں پر تشدد سے متعلق تھے، جن میں عورتوں کی خرید و فروخت، زنا بالجبر، دھمکی، دباؤ، مارپیٹ اور قتل جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ ان تنظیموں نے عورتوں کے حقوق کو فروغ دینے کیلئے مختلف سیمینارز بھی منعقد کروائے ہیں لیکن پھر بھی ان جرائم کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، ان تمام اقدامات کے باوجود بھی عورت کو ظلم و ستم، زیادتی، زنا اور جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کیساتھ ظلم و ستم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اسلام کے اعلیٰ اور منصفانہ اصولوں کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ظلم و زیادتی کی یہ صورتحال اسلامی معاشرے کے تاریک گوشوں کی عکاسی کرتی ہے۔

اسی طرح اگر پاکستان میں عورت کی سماجی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو وہ دیگر اسلامی ممالک سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مختلف معاشرتی مسائل اور فرسودہ رسو م ورواج کے نتیجے میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں، حق تلفیوںا ور نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گھریلو اور خانگی مسائل، کار و کاری کی مذموم رسوم، جرگوں کے یک طرفہ اور نامنصفانہ فیصلے، نو عمری میں شادیاں، ونی اور قرآن سے شادیوں جیسی قبیح رسومات کی وجہ سے خواتین کے ساتھ ظلم و ستم اور تشدد کو روا رکھا جاتا ہے۔ گھریلو ناچاقیوں کی بناء پر قتل کرنا ایک عام بات ہے۔ میڈیا پہ غیرت کے نام پر قتل کی خبریں اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ آئے روز کے ان واقعات کے باعث عورت اپنے ہی ملک و معاشرے میں عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ان واقعات کے خلاف مختلف این۔ جی۔ اوز بھی عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں کام کر رہی ہیں مگر پھر بھی ان واقعات کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

اگراس وقت پاکستان میں خواتین پر تشدد و قتل کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان ویمن ایکشن فورم کے مطابق ’’پاکستان میں ہر سال 72 فیصد سے زائد خواتین کو جسمانی و جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور بہت سی خواتین کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں سندھ میں عورتوں پر تشدد کے421 کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ عورت فائونڈیشن کی تحت نکلنے والی سالانہ رپورٹ ’’پاکستان میں عورت پر تشدد کی صورتحال ‘‘کے مطابق ـــــ:صوبہ پنجاب پاکستان کے تمام صوبوں میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح میں سر فہرست صوبہ ہے۔ پاکستان میں 2017 میں سالانہ 4069 واقعات ہوئے جن مین درج شدہ واقعات کی تعداد 2690 ہے۔

پاکستان میں خواتین پر ظلم و زیادتی کی صورتحال کا جائزہ حال ہی میں ہوئے مندرجہ ذیل ان واقعات کی بناء پرلیا جا سکتا ہے۔

  1. روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ’’مردان میں ایک میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کو رشتہ کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا ہے۔
  2. 13 فروری 2018ء کو سیالکوٹ (بونکن) میں نامعلوم افراد نے 4 بہنوں پر تیزاب پھینک دیا۔ متاثرہ بچیوں کی عمریں 6 سے 20 کے درمیان ہیں۔ (ARYnew)
  3. حال ہی میں ایک غیر درج شدہ واقعہ کے مطابق کراچی میں شازیہ نامی خاتون کو 3 بیٹیوں کی پیدائش پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
  4. ایک اور واقعے کے مطابق میر پور خاص (حمیدہ پورہ کالونی) میں ایک شخص عمر دین نے اپنی بیوی سے جھگڑے کے بعد اپنے بھتیجوں کے ساتھ مل کر بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے چھری سے اس کی ناک اور سر کے بال کاٹ دئیے۔

عصر حاضر کے ان تمام حالات و واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عورت کو زمانہ قدیم سے لے کر زمانہ جدید تک تمام ادوار میں ظلم و ستم اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں مختلف صورتوں میں ایذا ء دی جاتی ہے۔ جن میں اعضاء کاٹنا، زنا بالجبر، تیزاب پھینکنا، آگ سے جلانا اور مارنا پیٹنا وغیرہ شامل ہیں۔

تشدد کے ان واقعات کو روکنے کے لئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن صورتحال میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ان جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی وہ این۔ جی۔ اوز جو سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کام کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ان کاوشوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کے ضمن میں مذہبی سکارلرز سے بھی استفادہ کریں۔ عصر حاضر میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کو ایک انفرادی موضوع کے طور پر بیان کر کے اسلام کا متوازن چہرہ پیش کر نے کی کوشش کی ہے۔ ان ہی شخصیات میں سے ایک معروف و ممتاز شخصیت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ العالی جنہوں نے ’’اسلام میں انسانی حقوق ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں عورتوں کے حقوق کو ایک انفرادی موضوع کی حیثیت سے قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت ایک اسلامی جمہوریہ ملک کی اسلامی حکومت ہونے کی حیثیت سے اسلام میں عورتوں کو دئیے گئے حقوق پر سختی سے عمل کروانے کے اقدامات کرے ایسے مؤثر ادارے قائم کیے جائیں جو عورتوں کو جسمانی و جنسی اور ذہنی و نفسیاتی تشدد سے تحفظ فراہم کر سکیں۔ ہر سطح پر تشدد کے خاتمے کے لئے سر کاری بجٹ میں معقول رقم مختص کریں اور اقوام متحدہ میں عورت پر تشدد کے خلاف اعلانیہ رپورٹ تیار کی جائے تاکہ تشدد کی بڑ ھتے ہوئے واقعات کی شرح پر قابو پایا جا سکے۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، مارچ 2018

تبصرہ