ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

راضیہ نوید

1۔ تعارف

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نام زینب رضی اللہ عنہا بنت مطعون تھا جو عثمان بن مطعون کی بہن تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 5 سال قبل ہوئی جب قریش مکہ خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر میں مصروف تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنی عدی سے تھا اس طرح آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب دسویں پشت میں لوئی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے۔ علم النساب کے ماہرین کے مطابق سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا شجر نسب اس طرح ہے:

حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیز بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن دراح بن عدی بن کعب بن لوی۔ بن عدی کے پاس سفارت کا منصب تھا لہذا اسی وجہ سے مکہ میں ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ ظہور اسلام کے وقت سفارت اور ثالثی کے عہدہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب متمکن تھے۔ خاندانی حیثیت کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کا شمار قریش کے ان سترہ افراد میں تھا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔

2۔ ابتدائی زندگی

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ایزدی میں ایمانِ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی دعا کے بعد جب آپ رضی اللہ عنہا مشرف بہ اسلام ہوئے اور یوں آپ رضی اللہ عنہا کا پورا کنبہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا جس میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریباً دس سال تھی آپ رضی اللہ عنہا نے جس خاندان میں پرورش پائی اس کی چند صفات آپ رضی اللہ عنہا کے مزاج کا حصہ بن گئیں جن میں صاف گوئی، جرات، بے لوثی، معاملہ فہمی اور یک رنگی شامل تھی۔

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضرت خنیس رضی اللہ عنہ بن حزامہ سے ہوا جو اسلام کے بالکل اوائل دور میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار صحابی بن گئے تھے۔ حضرت خنیس رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کے تحفظ اور سلامتی کی خاطر اپنے دو بھائیوں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ہجرت مدینہ سے قبل ہی مکہ تشریف لے آئے تھے۔ حبشہ سے واپسی پر آپ رضی اللہ عنہ کی شادی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔ نبوت کے تیرہویں برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہا کو ہجرت مدینہ کی اجازت دے دی چنانچہ سیدہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر بھی اس سفر میں شامل ہوگئے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر،و الد اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ہجرت کی تکالیف برداشت کیں اور ہجرت کے بعد مدینہ کی قریبی بستی قبا میں سکونت اختیار کی۔ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر بپا ہوا جس میں آپ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ کے افراد نے بھی جرات اور شجاعت کے جوہر دکھائے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی غزوہ میں آپ رضی اللہ عنہا کے رفیق حیات حضرت خنیس رضی اللہ عنہ کفار کا بے باکی سے مقابلہ کیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ عرصہ بعد مدینہ میں ہی شہادت پاگئے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی کے لیے سخت پریشان تھے اور عدت ختم ہونے کے بعد انہیں آپ رضی اللہ عنہا کے لیے کسی قابل اعتماد رفیق کی تلاش کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیش کش رکھی لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ بالآخر آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور تمام تفصیل سے آگاہ کیا۔ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاـ: ’’حفصہ رضی اللہ عنہا کی شادی اس شخص کے ساتھ ہوگی جو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی شادی اس خاتون سے ہوگی جو حفصہ رضی اللہ عنہا سے بہتر ہے‘‘۔

3۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے باقاعدہ نکاح کا پیغام بھیجا جسے قبول کرلیا گیا۔ مہر چار سو درہم مقرر ہوا اور یوں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو حرم نبوی میں داخل ہوکر ام المومنین کا اعلیٰ و ارفع درجہ نصیب ہوا۔ اس نکاح کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملے اور کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی پیشکش پر میں اس لیے خاموش رہا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے سنا تھا اور میں یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ نکاح مبارک شعبان 3 ہجری میں ہوا۔ اس وقت ام المومین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمر 22 سال تھی۔

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں موجود تھیں ہر زوجہ محترمہ کے لیے الگ الگ رہائش گاہ مہیا کی گئی تھی جو ایک حجرہ تھا۔ حجرے کی دیواریں کچی اینٹوں کی اور چھت کھجور کی شاخوں کی تھی۔ دروازے پر کمبل کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرقی جانب حجرہ ملا۔ فقر کا یہ عالم تھا کہ آرام کرنے کے لیے ٹاٹ کا ایک ٹکڑا بستر کے طور پر استعمال کیا جاتا اکثر گزر اوقات دودھ اور کھجوروں پر ہوتی اور ہفتوں چولہے میں آگ نہ جلتی تھی۔

4۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا شوقِ حصول علم

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تعلق اس خاندان سے تھا جو اپنی فصاحت و بلاغت، فہم و فراست اور تقریر میں قریش میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بخوبی واقف تھے لہذا آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صحابیہ حضرت شفاء رضی اللہ عنہا بن عبداللہ عدیہ کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم پر مامور کیا انہوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف لکھنا سکھایا بلکہ زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی سکھایا۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا تعلیم و تفہیم کا بے پناہ شوق رکھتی تھیں یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات و اقوال نہایت توجہ سے سنتیں اور اگر ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفسار فرمایا کرتی تھیں۔ مسند احمد بن حنبل میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اہل ایمان غزوہ بدر اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ یہ ارشاد پاک سن کر آپ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

’’اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے مگر اس کا اس (دوزخ) پر سے گزر ہونے والا ہے یہ (وعدہ) قطعی طور پر آپ کے رب کے ذمہ ہے جو ضرور پورا ہوکر رہے گا۔‘‘

مریم: 71

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ درست ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے‘

المریم: 72

آپ رضی اللہ عنہا کا یوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا آپ رضی اللہ عنہا کی علم کے لیے پیاس اور شغف کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے 10 ہجری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں حج کی ادائیگی کا شرف حاصل کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر نگرانی و تربیت اس جماعت کا حصہ بن گئیں جس نے خواتین سے متعلق حج کے آداب و مناسک اور احکام و مسائل کی تعلیم دیگر خواتین تک پورے وثوق کے ساتھ پہنچائی۔

5۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ:۔

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ساٹھ روایات منقول ہیں۔ ان میں سے چالیس احادیث مبارکہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سماعت کیں۔ ان احادیث میں سے چار متفق علیہ، چھ صحیح مسلم میں اور باقی پچاس احادیث کی دیگر کتب میں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حمزہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن حارچ، صفیہ بنت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ، ام منشر انصاریہ رضی اللہ عنہا وغیرہ آپ رضی اللہ عنہا کے خاص تلامذہ میں شامل ہیں۔

6۔ حفاظتِ قرآن میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا کردار

قرآن مجید 23 برس کے عرصے میں وقفے وقفے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زباں مبارک سے سن کر قلب و ذہن میں محفوظ کرلیتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اس امر کا انتظام فرمادیا تھا کہ وحی الہٰی کو احاطہ تحریر میں لایا جائے چنانچہ یہ اہم خدمت دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کی گئی آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کے مطابق نازل شدہ آیات کو لکھ کر اپنے پا س محفوط کرلیتیں بعد ازاں جب عہد صدیقی میں باغیوں اور مدعیان نبوت کے خلاف جنگوں میں بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کی تجویز پر قرآن مجید کو مکمل کتابی صورت میں مدون کرنے کا اہتمام کیا گیا تو اس سلسلے میں ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا نسخہ سب سے زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہوا چنانچہ تمام قرآنی اجزا کو ایک مکمل مصحف کی صورت میں مدون کرکے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں دیا گیا جو تاریخ میں مصحف صدیقی کے نام سے مشہور ہوا۔ دور عثمانی میں عجمیوں کی ایک بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئی تو قرآن پاک کی کتابت، املاء اور تلفظ میں اختلاف کی صورتیں سامنے آئیں تو خلیفہ وقت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود نسخہ کی نقول کرواکر مختلف شہروں میں بھیجیں تاکہ پوری امت اختلاط و انتشار سے محفوظ ہوجائے۔ اس طرح اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی ترتیب و تدوین اور حفاظت میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بڑا اہم کام لیا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اپنی خاندانی خصوصیات کی وجہ سے طبعاً تیز مزاج تھیں اور بلا جھجک اپنی رائے کا اظہار کرلیا کرتی تھیں۔ عرب معاشرے میں عورت کو دبا کر رکھا جاتا تھا اور کسی بھی معاملے میں مشورہ لینا اپنی توہین تصور کیا جاتا تھا مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بے تکلفانہ گفتگو کرلیتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو جھگڑے اور فساد سے سخت نفرت تھی لہذا جب جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں باہم غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور آپ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فتنہ خیال کرتے ہوئے الگ رہنے کا ارادہ کیا تاکہ صورت حال ان کے کسی قدم سے مزید خراب نہ ہوجائے تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی سے کہا کہ اگرچہ ان معاملات میں شریک رہنا آپ رضی اللہ عنہا کے لیے فائدہ مند نہیں مگر آپ رضی اللہ عنہا کو مسلمانوں سے الگ رہ کر گوشہ تنہائی اختیارنہیں کرنا چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں کو آپ رضی اللہ عنہا کی رائے کا انتظار رہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے الگ تھلگ رہنے اورموجودہ مسائل میں دخل نہ دینے کی وجہ سے عام مسلمانوں میں اختلاف مزید بڑھے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کس طرح امت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فکر مند رہتیں اور گہری دلچسپی لیتیں۔

7۔ وصال

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں وفات پائی۔ یہ شعبان 45 ہجری تھی اور آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ نماز جنازہ مدینہ کے گورنر مروان نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہ اور بھتیجوں سالم، عبداللہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ نے قبر مبارک میں اتارا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کی جائیداد رفاہی کاموں کے لیے وقف کردی جائے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2018

تبصرہ