میری کہانی ۔۔۔ میری زبانی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

میرا سفر زندگی حسرتوں پر مبنی ہے۔ زندگی کے اتنے برس گزرنے کے بعد کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں تو ابھی پیدا ہونے کا حق بھی ادا نہیں کر پایا تو اللہ کی عطا کردہ باقی بے شمار نعمتوں کا شکر کیونکر ادا کرسکتاہوں؟ میں اللہ رب العزت سے صداقت وسچائی کی خیرات لیکر اپنی زندگی کے چند چیدہ چیدہ پہلوؤں کو بیان کروں گا۔ 1951ء، میری پیدائش سے 1974ء میں ابا جی قبلہ کے وصال تک 23سال کے عرصے میں کبھی مشکلات پیش نہیں آئیں۔ والد صاحب جس طرح دینی و روحانی طور پر بلندمقام کے حامل تھے اسی طرح ڈسٹرکٹ جھنگ میں دنیاوی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت محترم ومعتبر مقام عطا کیا تھا۔ علمی وتحقیقی معاملات میں انہیں یکتائے روزگار مقام حاصل تھا۔ گھرانہ مالی اعتبار سے متوسط تھا۔ جبکہ ابا جی قبلہ سے پہلے کی دوتین نسلیں بڑی غربت اور مشکلات سے گزری تھیں چونکہ چار پشت پہلے ہمارے آباؤ اجداد جھنگ کے علاقہ ’’کھیوا‘‘ سٹیٹ کے نواب تھے۔ جھنگ سے چنیوٹ جاتے ہوئے 13، 14 کلومیٹر کے فاصلے پر آج یہ ایک گاؤں ہے۔ جھنگ مگھیانہ سیالوں کی سٹیٹ تھی۔ یہ دونوں سیالوں کی Subcaste ہیں۔ اس طرح جھنگ سارا سیالوں کی مختلف ریاستوں پر مشتمل تھا۔ جس کی ایک سرحد ملتان اور دوسری میانوالی سے جاملتی تھی۔ فیصل آباد اور شیخوپورہ بھی اسی جھنگ سٹیٹ میں شامل تھے۔

ہمارے بزرگ تین بھائی تھے۔ نواب احمد یار خان، نواب جمعہ خان اور تیسرے بھائی کا نام مجھے یاد نہیں۔ یہ دونوں بھائی تو درویش اور فقیر منش لوگ تھے جبکہ تیسرے بھائی مزاجاً نواب ہی تھے تو دونوں بھائیوں نے تن کے جوڑے لے کر ساری جائیداد تیسرے بھائی کے حوالے کرتے ہوئے ترک دنیا کا فیصلہ کرلیا۔ نواب احمد یار خان جھنگ صدر آباد ہوگئے اور نواب جمعہ خان ڈیرہ اسماعیل خان چلے گئے۔ ان کی وہیں شادی ہوئی۔ چند برس پہلے میرا انٹرویو روزنامہ جنگ میں چھپا تو اسے پڑھ کر کچھ لوگ راجن پور، ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان اور کوہاٹ سے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم میاں جمعہ خاں کی اولاد ہیں۔ انہوں نے دوشادیاں کی تھیں۔ ایک کی اولاد راجن پور اور ڈیرہ اسماعیل خان آ کر آباد ہوئی اور ایک کوہاٹ میں آباد ہوئی اور پھر ان میں سے ایک ملتان بھی آ کر آباد ہوگئی۔ ان کی بیٹی یا پوتی ملتان رہتی ہیں۔ چند روز قبل جب میں ملتان کے دورہ پر گیا تو سوسال سے زیادہ عمر کی ضعیفہ خاتون مجھ سے ملنے بھی آئیں جو اب بھی حیات ہیں۔ ان کے چہرے کے خدوخال میرے دادا جان سے ملتے تھے۔ ان کے بیٹے کوئی بریگیڈیئر، کرنل اور کوئی ملتان میں ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں۔ اب وہ پاکستان عوامی تحریک ملتان کے بڑے متحرک کارکن ہیں۔ پہلے وہ عوامی تحریک میں نہیں آتے تھے۔ مجھے ملے تو میں نے کہا کہ یہ تو آپ کے گھر کی تحریک ہے آپ اس میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟ اس پر وہ تحریک میں شامل ہوگئے۔ ایک اور صاحب راجن پور سے آئے اور کہنے لگے کہ سیال میرا نام ہے اور پیر سیال گدی سے تعلق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں جمعہ خان کا مزار وہاں ہے اور میں ان کا سجادہ نشین ہوں۔ انہوں نے ایک موٹے کاغذ میں ڈیڑھ سوسال پرانا نقشہ اٹھایا ہوا تھا جس میں حالات و واقعات بالکل اسی طرح تھے جس طرح ہم نے اپنے بزرگوں سے سنے تھے۔ جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ واقعات درست ہیں باقی واللہ اعلم بالصواب! وہ نقشہ ان کو ان کے بزرگوں نے دیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی تفصیلات موجود نہیں۔ دوسرے بھائی احمد یار خان جو جھنگ میں آباد ہوئے وہ محنت مزدوری کرتے اور اپنی عبادت میں مشغول ہوجاتے۔ انہوں نے یہیں کہیں شادی کی اور اسطرح ہماری نسل جھنگ آباد ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارا گھرانہ شروع سے ہی ایک دینی گھرانہ تھا ہمارے اسلاف بزرگوں کو دینی علوم روحانیت اور اسلامی تعلیمات سے گہری دلچسپی اور وابستگی رہی ہے خاص طور پر میرے والد گرامی ڈاکٹر فریدالدین قادری اپنے وقت کے بہت بڑے جید عالم محقق اور فاضل شخصیت تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر تھے مگر ان کی ساری دینی تعلیم فرنگی محل لکھنومیں ہوئی تھی۔ اسی طرح انہوں نے طب کی تعلیم طبیہ کالج لکھنو اور ایلوپیتھک کی تعلیم و تربیت کنگ جارج میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ یہ غالباً 1930ء کا دور تھا۔ میرے والد محترم کی تاریخ پیدائش 1917ء ہے۔ انہوں نے مڈل تک جھنگ میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک سیالکوٹ سے کیا۔ اس کے بعد وہ لکھنو چلے گئے۔ وہ بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ امیر مینائی کے بھتیجے شکیل مینائی سے انہوں نے شاعری میں اصلاح لی تھی۔ ابا جی قبلہ خود بھی صاحب دیوان اور صاحبِ طرز شاعر تھے۔ ان کا دیوان بعد ازاں گم ہوگیا جس کی وجہ سے چھپ نہ سکا۔ تصوف اور روحانیت بھی ان کا بہت بڑا شغف تھا۔ سیرت کردار تقویٰ، شب بیداری اور روحانی خصائل کے اعتبار سے بلاشبہ وہ ولی اللہ تھے۔ انہیں روحانی فیض بغداد شریف کے بزرگ حضرت شیخ ابراہیم سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ملا تھا۔ ان دنوں گھر کی مالی حالت الحمدللہ بہت اچھی تھی کیونکہ ابا جی قبلہ خود ڈاکٹر تھے۔ دیہاتوں میں جو رورل ہیلتھ سینٹرز اور ڈسپنسریاں ہوتی ہیں وہ ان جگہوں پر سروس کرتے تھے اور تمام عمر سرکاری ملازمت میں رہے۔ 1974ء میں جب ان کا وصال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 56سال تھی تو اس وقت بھی وہ سروس میں تھے۔ وہ ایلوپیتھک کے ساتھ ساتھ طبِ یونانی میں بھی ماہر تھے۔ اس کے علاوہ نبض کے فن پر 1940ء میں ان کو انڈیا میں بطور خاص سند ملی تھی۔ حکیم عبدالوہاب انصاری سے انہوں نے نبض کا فن سیکھا تھا۔ والد محترم کی پریکٹس کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں جب میں بچہ تھا ان کی ایک ایک دن میں ہزار ہزار روپے تک پریکٹس ہو جایا کرتی تھی۔ وہ کم از کم بیس گھرانوں کو ماہانہ اخراجات مہیا کرتے۔ اس زمانے میں جھنگ میں ہمارے اپنے پانچ مکان تھے ایک بنگلہ اور دو پلاٹ فیصل آباد میں تھے۔ اس لئے مجھے کم از کم تعلیم حاصل کرنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

میرے والد گرامی نے مجھے تہجد کے معمول پر ڈال دیا تھا مجھے یاد ہے کہ سردیوں کی راتوں میں وہ سوہن حلوہ بنا کر رکھتے تھے اور صبح صبح تہجد سے پہلے گرم دودھ اور سوہن حلوہ لے کرمیرے کمرے میں آتے۔ میں ان کے قدموں کی آہٹ سن کر اٹھ جاتا تھا۔ وہ جگائے بغیر مجھے کہتے ’’بیٹے تیرے لئے وضو کے لئے گرم پانی رکھ دیا ہے اور دودھ اور سوہن حلوہ بھی ہے نماز کے بعد کھا لینا‘‘۔ میرا معمول بنانے کے لئے اس طرح انہوں نے میری تربیت کی۔ گھر میں وہ دودھ اور سوہن حلوہ ہم دو کو کھلاتے تھے ایک مجھے اور ایک بلی کو جو تہجد کے وقت ان کی گود میں آ کر بیٹھتی تھی۔ اسطرح ایک حصہ میرا ہوتا اور ایک اس بلی کا۔ انگلش سکول سیکرڈ ہارٹ میں داخل کروا دیا وہ جھنگ کا سب سے اچھا سکول تھا۔ 1950ء کے اوائل میں اس سکول کے نام سے ایک Chain ابھی ابھی قائم ہوا تھا جس کی ایک برانچ لاہور دوسری مری اور تیسری جھنگ میں کھلی تھی۔ جھنگ اگرچہ پسماندہ ضلع تھا مگر وہاں اس سکول کے قیام کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہاں زمیندار طبقہ زیادہ تھا جو افورڈ کرسکتا تھا۔ میری پیدائش 1951ء کی ہے اور میں 1955ء میں کلاس ون میں داخل ہوا۔ آپ اندازہ کریں آج سے چالیس، پینتالیس برس پہلے کے دور میں بھی میری سکول فیس 18 روپے ماہانہ ہوتی تھی۔ یونیفارم اور سکول کی کتابوں کاپیوں کے اخراجات الگ تھے۔ چونکہ یہ انگلش میڈیم سکول تھا، اس لئے یہاں پر پرائمری ہی سے سائنس، فزکس اور بیالوجی شروع ہوجاتی تھی۔ اس سکول میں داخلہ دلوانے کی وجہ یہ تھی کہ میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم وفنون میں بھی مہارت حاصل کرسکوں۔ سکول کے لئے کوٹ، نیکر اور ٹائی لگاتا اورجب گھر آتا تو ٹوپی شلوار اور قمیص پہن لیتا۔ 1962ء میں جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ میری دینی تعلیم بھی شروع کردی۔ اس میں صرف، نحو کے چھوٹے چھوٹے ابتدائی قاعدے ہوتے۔ اس زمانے میں عبدالرحمان امرتسری اور مشتاق احمد چرتھالوی کی ایک کتاب الصرف اور کتاب النحو ہوتی تھی۔ ساتھ ہی علم منطق اور مرقاۃ وغیرہ شروع کروا دی۔ دن کے وقت سکول جاتا اور شام دینی علوم کے حصول میں لگ گیا۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اس لئے میری تربیت پر انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ صرف ہم بہن بھائیوں کی تربیت کی خاطر انہوں نے جھنگ سے باہر سروس کی اور نہ ہی خود کو کہیں شفٹ کیا۔ جب میں بالکل بچہ تھا تو اس زمانے میں والد محترم کو طبیہ کالج لاہور میں وائس پرنسپل شپ کی پیشکش ہوئی۔ سعودی عرب اور مدینہ طیبہ میں بھی اچھے مواقعوں کی آفر آئی مگر وہ کہتے تھے کہ میں صرف طاہر کی تربیت کی خاطر کوئی پیشکش قبول نہیں کرسکتا۔ سکول کی تعلیم کے لئے انہوں نے میرے اور دوسرے بہن بھائیوں کے لئے گھر پر ٹیوٹر رکھا ہوا تھا تاکہ وہ ہمیں ہوم ورک بھی کروائے اور ہمارے نصابی معیار کو بھی بہتر بنائے۔ حتی کہ جب دو تین مہینے کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوجاتی تھیں تو جس جگہ والد صاحب کی سروس ہوتی پوری فیملی کے ساتھ تین مہینے کے لئے وہیں شفٹ ہوجایا کرتے اور ٹیوٹر کو بھی ساتھ لے جایا کرتے اور اسے پورے مہینے کی تنخواہ دیا کرتے۔ جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے والد صاحب مجھے خود پڑھایا کرتے تھے ان کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر روز پچھلے پہر گھر آجایا کرتے مثلاً ان کی پوسٹنگ ’’حسو بلیل‘‘ تھی جو جھنگ سے تیس میل دور تھا، جہاں ایک رورل ہیلتھ سینٹر تھا، تیس بتیس میل آنا اور جانا روزانہ اوسطاً 64میل کا سفر وہ روز میری خاطر طے کیا کرتے تاکہ شام دینی تعلیم پڑھا سکیں۔ انہوں نے باقاعدہ دینی تعلیم 1962ء کے آخر میں شروع کروائی تھی۔ عربی زبان اور عربی قاعدے پڑھا کر مجھے اس قابل کیا کہ تھوڑی سی عربی بولنے اور سمجھنے کے قابل ہوجاؤں۔ فارسی کی ابتدائی کتابوں سے لے کر بخاری مسلم شریف، ابوداؤد، ترمذی اور دورحدیث تک اول سے آخر تک پورے آٹھ سال انہوں نے مجھے خود پڑھایا۔ میری والدہ ماجدہ کا انتقال بھی اوائل عمر میں ہوگیا تھا ان کی عمر اس وقت تقریباً چھتیس برس تھی۔ ان کے بعد والد صاحب نے ہمیں والدہ کے حصے کی بھی توجہ دی۔ میری ہمشیرہ جو مجھ سے چھوٹی تھیں، وہ کھانا وغیرہ پکایا کرتی تھیں۔ کھانے کے موقع پر وہ بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو اور مذاق بھی کرلیا کرتے تھے تاکہ بچوں میں اپنائیت رہے۔ ان پر وحشت اور خوف طاری نہ ہو۔ سبھی بچوں کو بچپن ہی سے نماز اور قرآن پاک کی تربیت دی گئی تھی۔ وہ خود بھی شب بیدار تھے آٹھ آٹھ گھنٹے مسلسل مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ انہی کی تربیت کے زیر اثر میں تہجد پڑھنے کا پابند ہوا مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے یہ کیا ہو کہ بیٹا تہجد کے وقت اٹھا کرو بلکہ وہ عملی طور پر بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ رات کو چھوٹی عمر میں ہی ابا جی قبلہ کی آہیں، رونے کی آواز، کبھی چیخ سنتا تو ڈر کر اٹھ جاتا اور امی جان سے پوچھتا کہ ابو جان کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ کیوں رو رہے ہیں؟ انہیں کس نے مارا ہے؟۔ خشیت الہٰی، تصوف، رونا دھونا، اس طرح کے معمولات آنکھ کھولتے ہی گھرمیں عملاً دیکھ رہا تھا۔ پھر میں تصوف کی کتابوں کا مطالعہ ازخود کرنے لگا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتابوں کے سکول لائف میں ترجمے پڑھتا۔ مولانا غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کی کتابیں، سلطان العارفین حضرت باہو کی کتابیں تراجم، حضورغوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات ودیگر اولیاء کرام کے حالاتِ زندگی، تذکرۃ الاولیاء، ہشت بہشت وغیرہ۔ میں نے اردو زبان انہیں کتابوں سے سیکھی۔ ریگولر گیم، فٹ بال بھی کھیلتا تھا۔ رات کے گیارہ بجے تک درس نظامی کو وقت دیتا، صبح تہجد کے لئے اٹھنا، اشراق پڑھنا۔ پھر کبھی چھٹی کے دن 3,4 میل دور سائیکل پر دریائے چناب کے کنارے اکیلا چلا جاتا۔ بعدازاں کبھی کسی دوست کو بھی ساتھ لے لیتا۔ عام طور پر لوگ وہاں نہیں جاتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ یہاں خونخوار بھیڑیے وغیرہ ہیں۔ یہ Self-imposed محنتِ مشقت اور ریاضت تھی۔ اسی طرح محنت بڑھتی چلی گئی۔ پھر ایک گاؤں جوتیاں والا تھا اس میں تین تین ماہ کے لئے حضرت علامہ مولانا عبدالرشید رضوی کے پاس چلا جاتا۔ جب میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخلہ لیا تو تصوف کا ذوق اتنا غالب ہونے لگا کہ وہ علمی ذوق پر بھی غالب آگیا۔ ان دنوں روزانہ جھنگ سے فیصل آباد اور پھر واپس جھنگ 96میل کا فاصلہ طے کرتا اور یہ معمول Fsc کے دوسال مسلسل رہا۔ ان دنوں صبح 3:00 بجے کے قریب تہجد پڑھ کر نیوخان ٹرانسپورٹ کے اڈے پر آتا وہاں کی ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کرتا۔ نیوخان کے پہلے ٹائم پر فیصل آباد کے لئے روانہ ہوتا۔ گھنٹہ سوا گھنٹہ کی مسافت کے بعد دھوبی گھاٹ اترتا۔ کالج میں Recess کے بعد اردو کا پیریڈ ہوتا۔ میں نے پروفیسر عصمت اللہ خان نیازی جو اردو پڑھاتے تھے، سے مستقل چھٹی لے رکھی تھی۔ اس طرح پانچویں پیریڈ کے بعد ہی جھنگ کے لئے واپس چلا جاتا۔ دوسال کے اس دورانیہ میں کالج کے نیو ہاسٹل میں سیٹ بھی لے رکھی تھی۔ کبھی کبھار امتحان کے دنوں میں ہاسٹل میں رک جاتا تھا۔ اس طرح پورے دوبرس میں نے کالج کے ساتھ ساتھ اپنی دینی تعلیم کا معمول منقطع نہیں ہونے دیا۔ ابا جی قبلہ مجھے 6گھنٹے پڑھاتے تھے۔ کالج سے پڑھ کر واپسی پر بسوں میں بڑا رش ہوتا۔ کبھی سیٹ ملتی اور کبھی نہ ملتی۔ کئی دفعہ سارا سفر کھڑے ہوکر بھی کرنا پڑتا۔ وہ بسیں ایئرکنڈیشنڈ بھی نہیں تھیں۔ گرمیاں آتے ہی چک جوتیاں والا چلا جاتا، جہاں بجلی نہیں ہوتی تھی، ہاتھ والے پنکھے ہوتے تھے۔ وہاں حضرت علامہ عبدالرشید رضوی جو بڑے فاضل استاد ہیں (شیخ الحدیث محمد معراج الاسلام بھی ان کے شاگرد ہیں) ان سے صبح 3:00 بجے تہجد کے بعد پڑھائی شروع کرتا۔ درمیان میں نمازوں اور کھانے کا وقفہ کرتے اور مسلسل رات 11:00 بجے تک جاگتا اور پڑھتا۔ کبھی سر میں درد ہونے لگتا تو استاد محترم اپنے سر میں بھی تیل کی مالش کرواتے اور میرے سر میں بھی۔ بان والی چارپائی پر وہ سرہانے بیٹھتے اور میں پائنتی میں بیٹھتا جبکہ درمیان میں تکیہ پر کتاب ہوتی۔ گرمیوں کی رات باہر سوتے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ رات کو شدید آندھی آئی میری چادر، تکیہ، بستر، ٹوپی سب دور جا کر گرے۔ کچھ چیزیں تو مل گئیں اور کچھ نہ ملیں۔ اس جنگل بیابان میں باتھ روم، ٹوٹیاں اور غسل خانے نہیں تھے۔ آج تو زندگی ہی اتنے نخرے میں داخل ہوگئی ہے کہ خود زندگی ہی عذاب بن گئی ہے۔ ان دنوں ہینڈ پمپ ہوتے تھے۔ جس کے اوپر چھت نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ اس کی ہتھی چھوٹ کر میری ٹھوڑی پر لگی تو سارا چہرہ خون آلود ہوگیا۔ اسی ہینڈپمپ کے گرد چارپائیاں لگا کر چادریں ڈال دیتے اور غسل خانہ بن جاتا۔ اس طرح باہر دور رفع حاجت کے لئے بھی جاتے۔ اس دور میں اس گاؤں کے لئے ایک ٹوٹی پھوٹی بس چلتی تھی۔ جو چک آرائیاں تک آتی تھی۔ وہاں سے دارالعلوم تک دو میل کا فاصلہ ریت میں پیدل چلنا پڑتا۔ ہفتہ میں ایک دن گھر جھنگ آتا تھا۔ دارلعلوم میں ہر جمعرات کو عشاء کی نماز کے بعد محفل شروع ہوتی اور نماز تہجد تک ذکر بالجہر کرتے اور جسم کو تھکاوٹ بھی محسوس نہ ہوتی تھی۔ جب فیصل آباد گورنمنٹ کالج میں پڑھ رہا تھا تو ترک دنیا طبیعت پر غالب آگئی۔ عجیب کیفیت ہوگئی اورحال یہ ہوگیا کہ

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے

دل چاہتا کہ پڑھائی چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاؤں اور اس طرح گمنام ہوجاؤں کہ موت بھی وہیں آئے، کوئی پہچاننے والا نہ ہو، جانور ہڈیاں تک کھا جائیں۔ بڑا عرصہ ضبط کیا مگرایک دن ضبط کے بند ٹوٹ گئے تو میں نے بڑی بُری حالت میں رو رو کر استاد محترم مولانا عبدالرشید صاحب سے عرض کیا کہ آپ اباجی قبلہ سے سفارش کر کے مجھے معافی دلوا دیں تاکہ ان کے حقوق معاف ہوجائیں اور مجھے خوشی سے ترک دنیا کے لئے رخصت دے دیں۔ وہ پہلے تو مجھے سمجھاتے رہے۔ میں نہیں مانا تو انہوں نے ابا جی قبلہ سے میری سفارش کی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ استاد محترم نے کہا کہ آپ کے اباجی نے انکار کر دیا ہے، آپ خود ہی بات کرلیں تو میں نے ہمت کر کے ابا جی قبلہ سے یہ بات کر دی۔ والدہ اور والد صاحب اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر پڑا۔ وہ پریشان ہوگئے اور پوچھنے لگے کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ وعدہ کریں کہ میری بات نہیں ٹالیں گے تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو وعدہ نہیں کرسکتا۔ میں نے بتایا کہ میرا دل اس دنیا سے اچاٹ ہوگیا ہے۔ جو پڑھ لیا اور دیکھ لیا، کافی ہے مجھے معاف کردیں، میرے بعد آپ کے دوبیٹے اور بھی ہیں اللہ انہیں سلامت رکھے۔ آپ سمجھیں کہ میں اس گھرمیں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ میں کیسے سمجھوں کہ آپ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ میں نے تو آپ کو اللہ سے کعبۃ اللہ میں، مقام ملتزم پر کھڑے ہوکر مانگا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی پیدائش کی بشارت دی تھی، اُنہیں کے حکم پر میں آپ کو 1963 میں ان کی خدمت میں لے کر گیا۔ پھرکہنے لگے یاد ہے کہ آقا علیہ السلام نے آپ کو دودھ کا مٹکا دے کر فرمایا تھا کہ اسے لوگوں میں بانٹ دو، اب آپ دنیا سے بھاگتے ہیں۔ یہ تو مردوں کا شیوہ نہیں۔ مردوں کا طریقہ تو یہ ہے ’’رجال لاتلھیھم تجارۃ وبیع عن ذکراللہ‘‘ (القرآن) ’’کہ مردوں کو خرید و فروخت اور تجارت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کر سکتی‘‘۔ پھر فرمانے لگے کہ بیٹے ترک دنیا کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا ہی چھوڑ دو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حُب دنیا چھوڑ دو اور آپ تو پہلے ہی تارک دنیا ہیں۔ اس طرح میں ضد کرتا رہا اور وہ سمجھاتے رہے۔ ایک دن کہنے لگے ’’بیٹے آپ اللہ سے دعا کریں کہ جو بہتر ہے اللہ اس طرف آپ کے دل کو پھیر دے اور میں بھی دعا مانگتا ہوں‘‘۔ پھر رفتہ رفتہ دل سنبھلنے لگا بقول شاعر

ٹھہرتے ٹھہرتے دل یوں ہی ٹھہرجائے گا
بات جو آج ہے کل وہ شب ہجراں میں نہیں

اوریہ بات سمجھ میں آگئی کہ مجھے اپنے مولا کو اسی دنیا میں رہ کر پانا ہے اور یہی مردانگی ہے۔ اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ مجھے Fsc نہ کروائیں۔ اس طرح تو میں ڈاکٹر بن جاؤں گا لہذا میری لائن چینج کروا دیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ Fsc کا امتحان دیں اور باقی کام اللہ پر چھوڑ دیں اگر میڈیکل میں داخلہ ہوگیا تو اللہ اس سے بھی خدمت اسلام کے راستے کھول دے گا اور اگر داخلہ نہ ہوسکا تو میں سمجھ لوں گا کہ اللہ کی یہی منشاء ہے۔ لہذا Fsc کا امتحان دیا۔ ان دنوں High سیکنڈ ڈویژن والے طالب علم کو بھی میڈیکل میں داخلہ مل جاتا تھا۔ اس سے پچھلے سال 570 نمبروں والے طالب علم کو داخلہ مل گیا تھا۔ ان دنوں صرف لاہور بورڈ ہوتا تھا۔ فیصل آباد، سرگودھا اورگوجرانوالہ بورڈ نہیں ہوتے تھے۔ لہذا ان علاقوں کے طلباء بھی لاہور بورڈ سے امتحان دیتے تھے۔ غالباً سارے پنجاب کیلئے صرف لاہور بورڈ تھا۔ اس لئے بڑا سخت مقابلہ ہوتا تھا اور نمبر کم ہی آتے تھے۔ پورے کالج میں ایک یا دو فسٹ ڈویژنز آیا کرتی تھیں۔ کئی کالج تو ایسے بھی تھے کہ ان کو فرسٹ ڈویژن ہی نہیں ملتی تھی۔ میری زیادہ توجہ تصوف کی کتب کے مطالعہ اور دیگر دینی علوم پر تھی۔ امتحان قریب آیا تو کتابیں اٹھائیں اور جیسے تیسے تیاری کرکے امتحان دے دیا۔ اللہ کی شان کہ فرسٹ ڈویژن آگئی اور 616 نمبر آئے۔ اتنے نمبر دیکھ کر میں پریشان ہوگیا کہ اب کیا بنے گا؟ داخلہ کے لئے میڈیکل کالج میں اپلائی کیا تو دعائیں کرتا رہا کہ میرا داخلہ نہ ہو۔ اباجی قبلہ دعا کرتے کہ داخلہ ہوجائے۔ ایک رات گرمیوں کے دنوں میں چھت پر سویا ہوا تھا صبح اٹھ کر نیچے آرہا تھا کہ اباجی قبلہ نے چھت پر چڑھنے کیلئے پہلی سیڑھی پرپاؤں رکھا۔ مجھے اترتا دیکھ کر رک گئے۔ میں نیچے اترا تو اباجی قبلہ نے کہا ’’بیٹے مبارک ہو۔ اللہ نے آپ کے منصوبے کو ہی قبول فرمایا ہے‘‘۔ یہی ہوا اس سال میرٹ اوپر چلا گیا اور 616 نمبر والے آخری طالب علم کو داخلہ ملا۔ اب 616 کے لئے ایک سیٹ تھی اور ہم دو لڑکے تھے۔ دوسرے لڑکے کی عمر مجھ سے تین ماہ زیادہ تھی۔ اصول یہ تھا کہ اگر ایک سیٹ پر برابر نمبروں والے دو طالب علم ہوں تو زیادہ عمر والے کو داخلہ ملے گا۔ اس لئے دوسرے طالب علم کو داخلہ مل گیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

ان دنوں ایک معمول یہ بھی تھا کہ ایف ایس سی کے دوران جب فیصل آباد پڑھتا تھا۔ اتوار کی چھٹی ہوتی تو ہفتہ کے روز گھر جانے کی بجائے لاہورجاتا۔ وہاںبادامی باغ اترتا اور حضور داتا صاحب آتا۔ داتا صاحب آکے نماز مغرب پڑھتا۔ اوابین کے نوافل ادا کرتا۔ اور نماز عشاء کے بعد مراقبہ میں بیٹھتا اور تہجد تک بیٹھا رہتا۔ وہاں نیلے کپڑوں والے 75- 80 برس کے ایک اللہ والے بزرگ اور میں ساری رات بیٹھتے۔ تین ساڑھے تین بجے مراقبے سے اٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کر کے فجرکی نماز ادا کرتا، اگلی رات بھی اسی طرح جاگتا اور صبح تہجد کی نماز ادا کر کے دوبارہ پیدل بادامی باغ جاتا۔ وہاں نماز فجر ادا کر کے نیو خان کی بس پر بیٹھ کر فیصل آباد جاتا اور اگلے دن دو راتیں سوئے بغیر کلاس Attend کرتا، یہ معمول پورے دو سال رہا۔ اس طرح طبیعت کو مشقت کا عادی کر رکھا تھا۔ B.A کا امتحان میں نے پرائیویٹ دیا۔ ان دنوں میں 16,16 اور 18,18گھنٹے روزانہ چک جوتیاں والا درسیات پڑھتا۔ اس کے باوجود بی۔ اے کے مضمون اسلامک سٹدیز میں یونیورسٹی بھر میں فرسٹ آیا، اردو جو میں نے کسی استاد سے پڑھی ہی نہیں تھی، اس کی پنجاب بھر میں سیکنڈ پوزیشن آگئی۔ پنجاب یونیورسٹی میں جب M.A کا داخلہ ہوا تو میرٹ میں بھی میری پوزیشن تھی جس پر مجھے میرٹ سکالر شپ مل گیا۔ اس دوران کچھ پیسے گھر سے لے لیتا اور کچھ سکالر شپ سے آجاتے جس سے بآسانی میرا خرچہ چل جاتا۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ مطالعہ کے لئے زیادہ سے زیادہ کتابیں خریدوں اور گھر پر بوجھ بھی نہ بنوں کیونکہ دو چھوٹے بھائی بھی زیر تعلیم تھے۔ چھوٹا بھائی جاوید جس کی بعدازاں Death ہوگئی، وہ ملتان سے کیمیکل انجینئرنگ کر رہا تھا۔ دوسرا بھائی محمد طارق سرگودھا میں پڑھ رہا تھا۔ اباجی قبلہ ہم تینوں کے ماہانہ اخراجات کے علاوہ گھر کے اخراجات بھی پورے کرتے۔ اس کے علاوہ 15، 20 بیوگان، یتیم بچوں اور محلے میں دیگر غریب گھروں کو بھی ماہانہ خرچ دیتے اور کچھ رقم حرمین شرفین کی حاضری کیلئے بچالیتے تھے۔ اس لئے میری کوشش ہوتی کہ مقررہ رقم سے زیادہ میں گھر سے نہ منگواؤں۔ ادھر میرے کئی کلاس فیلوز کافی غریب تھے۔ میں اپنی سکالر شپ اور گھر سے آئے ہوئے پیسوں سے اپنے اخراجات بھی پورے کرتا اور اپنے کلاس فیلوز کی فیس بھی ادا کرتا۔ کسی کو کپڑے اور کتابیں بھی لیکر دیتا۔ خدا کا شکر ہے آج ان میں کچھ کالجوں کے پرنسپل بھی لگے ہیں اور بعض دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ آج بھی مجھے ملتے ہیں۔ اس وقت چھٹی کے دن انار کلی میں فٹ پاتھ پر جو کتابیں لگتی تھیں۔ سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے کتابوں کو چنتا، کشمیری بازار میں کچھ دکانیں ہوتی تھیں، وہاں چلا جاتا۔ وہاں کتابیں ترتیب سے نہیں لگی ہوتی تھیں۔ انبار لگا ہوتا جہاں سے اپنی ضرورت کی کتابیں ڈھونڈ کے لاتا، مارکس، فیریڈک، اینجلز، سٹالن اور لینن، ماوزئے تنگ کی کتابیں خریدتا۔ جس کیلئے تین تین دن میس سے کھانا نہ کھاتا اور پیسے کتابوں کیلئے بچاتا۔ صبح ایک بن اور لسی کے گلاس سے ناشتہ کرتا اور سارا دن بغیر لنچ اور ڈنر کے گزار دیتا۔ بہت بھوک لگتی تو چائے کا کپ پی لیتا۔ کبھی نقاہت سے بچنے کیلئے ساتھ بسکٹ سلائس لے لیتا۔ اس طرح تین دن میس کا ناغہ کرتا اور ایک ہفتہ کھانا کھاتا۔ اس طرح اندازہ ہوجاتا کہ اتنے پیسے بچ جائیں گے تو ان سے میں کتابیں خریدتا۔ نیوکیمپس رہائش ہوتی اور اولڈ کیمپس کلاسیں۔ تو کبھی بس کا سفر کرنے کی بجائے سائیکل پر بیٹھ کر کلاسیں پڑھنے جاتا اور واپس آتا تاکہ وہ پیسے بھی بچا کر کتابیں خرید سکوں۔ یہ 70کی دہائی کی باتیں ہیں۔ اس دور میں کتابیں کافی سستی ہوتی تھیں۔ یہ معمول چار سال رہا۔ جب میں ایم اے کی غرض سے پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب اسلامی فلسفہ میں میرے استاد تھے، وہ ایم اے کے مضمون میں بھی میرے گائیڈ تھے، جب میں ان کی صحبت میں بیٹھا تو مجھے فلسفہ انقلاب کے تصور سے آشنائی ہوئی۔ اسلامی فلسفہ انقلاب اور قرآنی فلسفہ انقلاب کے حوالے سے انہوں نے مجھے کچھ لیکچرز دیئے کہ میں نے محسوس کیا کہ سوچ کے کچھ گوشے اور کچھ فلسفہ و فکر کے گوشے نئے ہیں جو ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے ذریعے مجھے ملے جس سے مجھے فکر کی ایک نئی جہت ملی۔

اس کے بعد میں نے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سوچ بچار شروع کردی۔ بالخصوص پاکستان، پاکستانی معاشرے اور عالم اسلام کی زبوں حالی کا مجھے ایک ایسا درد فکر اور پریشانی تھی کہ بسا اوقات میں کئی کئی گھنٹوں تک رویا کرتا تھا۔ میں جب یہ دیکھتا کہ کچھ مسلمان ممالک امریکہ کے بلاک میں بٹے ہوئے ہیں کچھ روس کے بلاک میں بٹے ہوئے ہیں۔ امت مسلمہ اپنی شناخت کھوچکی ہے اور وہ باہمی طور پر غلامی اور محکومی کی زندگی گزار رہی ہے، مسلمانوں کی اپنی عزت نفس نہیں رہی، نظام تعلیم سے جو نوجوان پیدا ہورہے ہیں، وہ بکھر چکے ہیں۔ ان کی سیرت، کردار اور سوچ نہیں ہے۔ مستقبل میں انقلاب کی سوسائٹی میں ان کی پلاننگ کوئی نہیں ہے۔ نئی قیادت اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ دور تھا جب بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ چلائی جا رہی تھی۔ وہ مکمل طور پر لادینیت کا دور تھا اسلام کے شعائر کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ دوسری طرف سے فاشزم شروع ہوگئی۔ یہ سارے حالات دیکھ کر مجھے مسلسل مایوسی ہوتی رہی۔ ان چیزوں نے میرے اندر ایک اضطراب پیدا کیا اور مجھے یہ سوچ ملی کہ اسلامی اور قرآنی انقلاب لانے کے لئے فلسفہ اور طریقہ کار کیا ہے۔ یہ ساری سوچ اور تصور مجھے ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی صحبت سے ملا۔ اس کے بعد میرا ایک اپنا سفر اور محنت شروع ہوگئی۔

اس دوران میں نے روسوکو اور کارل مارکس کو Study کیا، سٹالن اور لینن کا مطالعہ کیا چونکہ مالی پریشانی کوئی نہیں تھی اس لئے کتابیں وغیرہ خریدنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ میں نے اپنے مطالعہ کے دوران اول تا آخر سوشلسٹ فلاسفی کھنگال ڈالی۔ اس کے بعد میں نے اسلامی تاریخ کے انقلابات کا مطالعہ شروع کیا جس کا آغاز میں نے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا۔ اس سے پہلے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ پڑھ چکا تھا مگر اب میں انقلاب کو سٹڈی کرنے لگا تھا۔ اس سلسلے میں شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار کو بہت زیادہ پڑھا، ان کی تحریکوں کا بہت گہرائی میں جا کر مطالعہ کیا۔ ان کا آپس میں موازنہ کیا۔ پھر شاہ اسماعیل دہلوی کی بالاکوٹ تحریک کا بھی مطالعہ کیا۔ اس کے بعد علماء دیوبند، علماء بریلوی اور علما ندوا کی تحریکوں کو پڑھا۔ اس کے علاوہ سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک، مسلم لیگ اور قیام پاکستان کو پڑھا۔ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعتوں کی تحریکوں کو بڑی تفصیل سے پڑھا۔ میں نے مولانا مودودی صاحب کو اتنا پڑھا ہے میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا کوئی بڑے سے بڑا عقیدتمند اور انتہائی قریبی منجھا ہوا شخص بھی مولانا مودودی کو مجھ سے زیادہ پڑھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ علی برادران کی تحریک خلافت کا بھی میں نے وسیع مطالعہ کیا۔ یہ تو تھا تاریخ کے ارتقا کا مطالعہ۔ اب میرے ذہن میں عالم اسلام کی اس زبوں حالی کے بارے میں سوال پیدا ہوئے جو گذشتہ دو ایک صدیوں میں آئی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اس زبوں حالی کو دوبارہ مسلمانوں کے عروج میں کیسے بدلا جائے اور ملک میں انقلاب کا آغاز کس طرح ہو۔ ان تمام سوالوں کا جواب دور حاضر کے لکھنے والوں اور بیان کرنے والوں کے ہاں مجھے کہیں نہیں ملا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر اسرار احمد کی تحریک بھی شروع ہوچکی تھی بلکہ 1965ء میں جب میں نویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا اور اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں پڑھا کرتا تھا اس وقت ڈاکٹر اسرار احمد کی انجمن خدام القرآن قائم ہوچکی تھی اس سلسلے میں وہ دورے بھی کیا کرتے تھے اور ایک مرتبہ ہمارے اسکول بھی تشریف لائے۔ میں تو اس وقت بچہ تھا۔ اس موقع پر طلباء نے ڈاکٹر صاحب کو کچھ ذہین بچوں کے پتے وغیرہ دیئے گئے۔ میں بھی نہ صرف ان سے ملا بلکہ انہیں اپنے گھر بھی لے گیا۔ ان کا کھانا کیا۔ اپنے محلے کی مسجد میں ان کا درس قرآن کروایا۔ اس طرح میں ہر کسی کو دیکھتا اور سٹڈی کرتا تھا۔ انہی دنوں احسن اصلاحی صاحب کے درس ہوتے تھے وہ بھی میں سنتا رہا۔ پرویز کے درس میں نے سالہا سال سنے۔ مولانا مودودی کی تصانیف کا مطالعہ کیا ایک مرتبہ ان کے گھر جاکر ان کے ساتھ نماز تو پڑھی تھی مگر بالمشافہ ملاقات نہ ہوسکی۔

کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ان میں سے کسی کے ہاں بھی میں نے اسلامی انقلاب کا تصور واضح طور پر نہیں دیکھا۔ میں نے جہاں بھی دیکھا مجھے Confusion نظر آیا۔ Clarity نہیں دیکھی۔ اسلامی انقلاب کی بات تو سارے کرتے تھے مگر ایسا کوئی نہ تھا جو انقلاب کے تصور کو سائنس اور ریگولر فلاسفی کے طور پر پیش کرتا۔ جس کے نتائج دو جمع دو برابر چار کی طرح پیدا ہونے کی توقع ہوتی۔ تاہم جس قدر میں نے سوشلسٹ اور کمیونسٹ مفکرین کے ہاں غیر اسلامی اور کافرانہ انقلاب کے سلسلے میں Clearity دیکھی، اس کا سوواں یا ہزارواں حصہ بھی میں نے موجودہ دور کے اسلامی علماء اور مفکرین میں نہیں دیکھا۔

یہ بات میں نے Compartive Study کی بنیاد پر کی ہے مثلاً موزے تنگ ہے، لینن ہے، وہ سوشلسٹ اور کافر لوگ ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جس سے ٹکر لے کر اسے شکست دینا مقصود ہوتا ہے تو جتنی یقین کی طاقت کے ساتھ وہ لڑ رہا ہے اس سے زیادہ یقین کی طاقت آپ کے پاس ہوگی تب ہی تو آپ اسے شکست دے سکیں گے۔ یہ مغربی مفکر تو یہاں تک کہتے تھے کہ ہمارے فلسفے اور ہمارے پروگرام کو آپ لیبارٹری ٹیسٹ کے طور پر Apply کریں تو یقیناً اس کے رزلٹ پیدا ہوں گے۔ دوسری طرف جب میں اسلامی علماء کے لٹریچر کو پڑھتا تو یہ کہتے، محنت اور جدوجہد کرنا ہمارا فرض ہے، نتائج پیدا ہوں یا نہ ہوں یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگرکسی کو دنیا میں اس محنت کا پھل نہ بھی ملے تو تب بھی وہ کامیاب ہے کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے اسے اس کی محنت کا اجر ملے گا کہ اس نے زندگی اللہ کی یاد میں گزار دی ہے۔ گویا ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس دنیا میں حق اور باطل کے معرکے کی شکل میں، خیر اور شر کی ٹکر کی شکل میں حق کا غالب آنا، خیر کا جیت جانا اور نیکی کا فتح یاب ہو جانا اس کی وہ کوئی ضمانت اپنے طور پر دینے کو تیار نہیں ہیں۔ مگر میں سمجھتا تھا کہ یہ ان لوگوں کی فکر کی کمزوری ہے، ان کے Thought کی پراگندگی ہے، ان کے اسلامی انقلاب کے تصور میں Confusionہے۔ پھر یہ سب کچھ انبیائے کرام کے سر پر تھوپ دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا۔ دنیا میں ایسے انبیاء بھی آئے جنہوں نے صدیوں تبلیغ کی مگر نتائج پیدا نہیں ہوئے، ظاہری نتائج کے اعتبارسے وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے مگر حقیقت میں وہ بھی کامیاب ہوئے کیونکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں درجات دیئے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک انقلابی کے لئے یہ تصور قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ آخرت کی کامیابی تو اہل ایمان اور اہل خیر کے لئے ہے ہی، وہاں تو خیر و شر کی جنگ ہی نہیں ہوگی وہاں تو جزا اور سزا کا دور ہوگا۔ جنگ کا تو یہ وقت ہے۔ معرکہ آرائی کا میدان تو یہ دنیا ہے۔ جب کہ آخرت میں تو نہ کوئی جنگ ہے، نہ معرکہ، نہ کوئی ٹکر ہے۔ وہاں تو اللہ نے سزا اور جزا دینی ہے۔ وہاں تو صرف فیصلے کا دن ہے، جنگ کا دن تو یہ ہے۔ چنانچہ میں نے جب یہ ساری چیزیں دیکھیں تو میرے اندر ایک اضطراب پیدا ہوا۔ میں نے سوچا یہ لوگ جو تحریکیں لے کر چل رہے ہیں اور جماعتیں لے کر چل رہے ہیں، یہ تو وہ لوگ تھے جو جدید فکر رکھنے والے مفکر تھے، مگر کچھ علماء کا طبقہ روایتی سوچ رکھنے والا تھا۔ میں نے انہیں بھی تفصیلاً پڑھا تھا ان کے ہاں سوائے مسلکی اعتقادی اور فروعی مسائل کے اور سوچ ہی کوئی نہیں تھی۔ ان کی تو ساری جنگ ہی بریلوی اور دیوبندی کی جنگ تھی۔ شعیہ، سنی کی جنگ تھی اور سنی، وہابی کی جنگ تھی۔ وہ تو اس دائرے سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ان لوگوں سے توقع نہیں تھی کہ کوئی انقلاب لائے گا۔

چنانچہ یہ وہ حالات تھے کہ مجھے یہ خیال آیا کہ میں اس سلسلے میں الگ سے سوچوں اور اپنی فکر کو Develop کروں۔ بہر طور یہ ساری چیزیں میں نے ایک طرف رکھ دیں اور ازسر نو قرآن پاک کا مطالعہ شروع کیا۔ اب کی بار میرا قرآن مجید کا مطالعہ انقلاب کی سوچ کے حوالے سے تھا کہ اجتماعی، انفرادی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں انقلاب کیسے آئے گا۔ اسلامی انقلاب کے حوالے سے قرآن کا یہ مطالعہ میں نے 74 - 1973 کے لگ بھگ شروع کیا اور 1980ء میں مکمل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حدیث پاک کا بھی مطالعہ کیا۔

تعلیمی میدان میں ایم اے اسلامیات میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور یونیورسٹی کا ریکارڈ توڑا۔ اسی دوران مجھے ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں Phd کا سکالر شپ مل گیا۔ 15 فروری 1974ء کو ہاروڈ یونیورسٹی جائن کرنی تھی۔ اس کیلئے میں نے اباجی قبلہ کی بڑی منتیں کیں۔ عزیز و اقارب سے سفارشیں کروائیں۔ وہ اجازت نہیں دے رہے تھے۔ جب میں نے بہت زور ڈلوایا تو مجھے اکیلے بلایا اور فرمایا کہ آپ نے وہاں 15 فروری سے پہلے جائن کرنا ہے۔ اگر آپ وہاں چلے گئے تو میرے جنازے میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ میں آپ کو اس لئے نہیں روک رہا کہ آپ پی ایچ ڈی نہ کریں اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ادھر ہی آپ کی پی ایچ ڈی ہوجائے گی۔ ابا جی کی اس بات پر میں خاموش ہوگیا۔ ستمبر 1974ء میں اسلامیہ ہائی سکول جھنگ کے گروانڈ میں یوم دفاع کی تقریب ہوئی۔ وہ بھٹو دور تھا۔ اس وقت حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی بیوہ بھی خطاب کرنے والی تھی اسی طرح مولانا عبدالستار خان نیازی بھی اس تقریب میں آئے ہوئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کو کہا گیا کہ ایک نمائندہ جھنگ سے بھی خطاب کرے۔ میں ان دنوں جھنگ میں چھ ماہ کیلئے عارضی لیکچرشپ کا دورانیہ گزار رہا تھا۔ اس کے بعد PCS کے ذریعے میری باقاعدہ پوسٹنگ عیسیٰ خیل ہوئی تھی۔ ان دنوں گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تقیع الدین انجم تھے۔ DC جھنگ نے پرنسپل سے کہا، انہوں نے مجھے کہا۔ اس تقریب میں اباجی قبلہ بھی سٹیج پر تھے تو میں نے تقریر کی۔ جس کے بعد حنیف رامے کی تقریر تھی۔ میرے خطاب میں ایسا سماں بنا کہ خطاب کے ختم ہوتے ہی مجمع اٹھ کے چل پڑا۔ حنیف رامے صاحب نے اپنی گفتگو سمیٹی اور اس طرح جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس تقریر کو سن کر ہر کوئی ابا جی قبلہ کو مبارکباد دینے لگ گیا۔ اتنے بڑے جلسے میں میرا پہلا خطاب تھا۔ جب ہم سٹیج سے اترے تو چالیس پچاس لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ ابا جی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہاتھ اٹھا کے وہ کہتے جارہے تھے۔ خدایا! جو فریضہ تو نے مجھے سونپا تھا، میں نے مکمل کر دیا، آج میں نے طاہر کا مستقبل دیکھ لیا۔ اب مجھے اٹھالے۔ اب اس دنیا میں مجھے مزید رہنے کی ضرورت نہیں۔ جو دوست احباب ساتھ تھے، وہ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ ابھی تو آپ نے بڑے مرحلے دیکھنے ہیں۔ مگر وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ اب مولا واپس بلالے۔ اب میرا کام مکمل ہوچکا۔ یہ جملے بار بار دہراتے جاتے اور روتے جاتے۔ اکتوبر 1974ء میں گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں لیکچرر تھا۔ ابھی 16 دن ہی میں نے پڑھایا تھا۔ عید قریب تھی مگر لیلۃ القدر کے لئے تین اضافی چھٹیاں لیکر 26ویں رمضان کو میں گھر پہنچا۔ 27ویں رات ختم قرآن کی نماز تروایح میں شریک تھے کہ اباجی قبلہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور 16 شوال 1974 کو ان کا وصال ہوگیا۔ اس دوران 3 بار ہارٹ اٹیک ہوا۔ 19 روز بستر پر رہے۔ جب وہ بیماری کے دوران ہسپتال میں تھے۔ تو اس وقت کل 1800 روپے بینک بیلنس تھا۔ ان بیماری کے دنوں میں جب رات کو سارے بہن بھائی سو جاتے تو میں پاؤں دبانے لگتا وہ پاوں کھنچ لیتے اور کہتے ادھر میرے سر کو دبا لو۔ ایک دن کہنے لگے بیٹے چیک بک لے کر آؤ۔ میں چیک بک لایا تو پوچھا کہ اکاؤننٹ میں کتنے پیسے ہیں۔ میں نے بتایا کہ 1800روپے، فرمانے لگے کہ ساری رقم بنک سے نکلوا لو اور بنک اکاؤئنٹ Nill کر دو۔ اسی رقم سے جو علاج ہوسکتا ہے کروا لو مگر ادھار نہ اٹھانا کیونکہ میری یہ مرض الموت ہے۔ اگر ادھار اٹھاؤ گے تو اس کی ادائیگی میں مشکل پیش آئے گی اور پھر فرمانے لگے اب آپ کی زندگی میں بڑے امتحان آنے والے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اکاؤئنٹ Nill کرنے کی بجائے 20,10 روپے رکھ لیتے ہیں۔ مسکرا کے فرمانے لگے بیٹا مجھے آج سے 30برس قبل بتا دیا گیا تھا کہ جب تمہیں ہارٹ ایٹک ہوگا تو وہ تمہاری مرض الموت ہوگی۔ اس لئے یہ چند دن میرے ساتھ گزار لیں، یہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ میں رات دن ان کے پاس بیٹھتا۔ اکیلے میرے ساتھ باتیں کرتے۔ کچھ نصیحتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ ان میں نمایاں وصیت یہ تھی فرمایا: ۔۔ ’’پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ جوکہوں گا وہ کروگے‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ فرمایا وعدہ کرو کہ میرا جنازہ خود پڑھاؤ گے اور مجھے مولویوں کے سپرد نہیں کرو گے۔ میں خاموش رہا تو فرمایا زبان سے بیٹا کہو کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ بڑی زی ہستیاں جنازے پر آئیں گی آپ ان کو کچھ کہہ نہیں سکیں گے مگر بیٹے میرا جنازہ خود پڑھانا۔ یہ مجھ سے وعدہ کرو۔ میں نے وعدہ کر لیا اور فرمایا کہ جن کپڑوں کے ساتھ میں ہمیشہ حج کے لئے احرام باندھتا ہوں ان کے کفن کے ساتھ مجھے دفنا دینا۔ اسی طرح کچھ اور وصیتں بھی کیں۔

جب ان کا وصال ہوا تو کُل میرے پاس پچاس روپے بچ گئے تھے۔ اس طرح میں نے اپنی زندگی کا آغاز 50روپے کیش سے کیا۔ اس کے بعد میں نے کالج جاکے چھٹی لی۔ ایک خاتون ڈائریکٹر تھیں جن کا نام نسیم اولکھ تھا۔ مجھے آج بھی ان کا نام یاد ہے۔ یہ سرگودھا ڈویژن کی ڈائریکٹر ایجوکیشن تھیں۔ میں ٹرانسفر کی درخواست لکھ کر ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میرے والد صاحب کا وصال ہوگیا ہے۔ 1968ء میں 6 برس قبل میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ اب میں گھر کا سربراہ ہوں۔ چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کا واحد کفیل ہوں اس لیے مجھے جھنگ کے قریب گوجرہ ٹوبہ، فیصل آباد وغیرہ کے کسی کالج میں ٹرانسفر کردیں۔ انہوں نے کہا۔ ’’ان علاقوں میں ہمارے پاس کوئی سیٹ نہیں لہذا ہم آپ کی ٹرانسفر نہیں کرسکتے‘‘۔ جب باہر آیا تو ان کا سیکرٹری تھا جسے صوفی، صوفی کہتے تھے وہ مجھے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا اور کہنے لگا ’’باؤ جی کہاں جا رہے ہیں‘‘ میں نے کہا واپس۔ اس نے کہا کہ آپ بیٹھیے اور ٹرانسفر آرڈر لیکر جائیں۔ میں نے کہا کیسے؟ اس نے کہا صرف 500روپے میں۔ آ پ کو سیدھا ڈائریکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم جو باہر آپ کے خادم بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سستا زمانہ تھا۔ اس وقت 500سے کام چل جاتا تھا۔ میں نے کہا 500روپے سے ٹرانسفر ہوجائے گی؟ ’’جی بالکل ! ابھی آرڈر لے کر جائیں‘‘ اس نے کہا۔ اس وقت گریڈ 17 کی Basic pay پانچ سو (500) روپے تھی اور الاؤنس ملا کے 900 روپے ہوتے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ صرف 500 مانگتے ہیں میں 900 کی نوکری ہی آپ کے حوالے کرتا ہوں اور لعنت بھیجتا ہوں آپ پر اور آپ کی نوکری پر۔ میں نے واپس آ کر استعفیٰ لکھا اور محکمہ تعلیم کو بھیج دیا۔ محکمہ والے بعد میں بھی کئی برس تک رابطہ کرتے رہے اور میرا نام سروس لسٹ سے نہیں کاٹا۔ لیکن میں نے پھر ادھر کا دھیان ہی چھوڑ دیا۔ اب وہ بھی ذریعہ آمدنی ختم ہوگیا۔ اس دوران میں نے لاء کر لیا تھا۔ اپرنٹس شپ کا منصوبہ بنایا۔ جاوید بھائی کو 50روپے دیکر ملتان بھیج دیا اور گھر اور مہمانوں کے لئے اس رات کا کھانا قرض لیکر کر تیار کیا۔ میرا ایک دوست تھا۔ اس سے گھر کے لئے بھی قرض لیا اور جاوید بھائی کے لئے بھی۔ تیسرے دن جاوید بھائی نے فون کیا۔ میں نے اس کو تبایا کہ پیسوں کا بندوبست میں نے کر لیا ہے۔ اس نے کہا آپ پیسے دینے نہ آئیں میں خود آ کر لے جاؤں گا۔ کچھ دنوں بعد رات کو دیر سے جاوید بھائی آیا۔ رات مجھے نہیں ملا۔ علی الصبح میں نماز کے بعد والدہ اور والد صاحب کے مزار پر فاتحہ کے لئے قبرستان چلا گیا۔ جب واپس آیا تو چھوٹی ہمشیرہ ہمارا ناشتہ بنا رہی تھی اور ناشتہ بناتے ہوئے زاروقطار رو رہی تھیں۔ میں نے سمجھا کہ شاید ابا جی کو یاد کرکے رو رہی ہیں۔ میں نے خاموش کرانے کی بارہا کوششیں کیں مگر وہ خاموش نہ ہوئیں۔ بالآخر میں نے پوچھا کہ رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے روتے روتے کہا کہ رات کو جاوید آیا ہے اور وہ زخمی حالت میں ہے، پاؤں پر شدید چوٹ آئی ہے۔ میں حیرانگی و پریشانی کی حالت میں جاوید کی طرف گیا اور اس سے ماجرا پوچھا۔ اس نے پہلو تہی کی مگر بے حد اصرار پر وہ کہنے لگا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے 50روپے مجھے دے دیئے تھے اور اپنی زندگی کا آغاز ادھار سے کیا اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ آپ میری کالج کی فیس اور میس فیس بھی ادھار اٹھا کردیں گے لہذا کالج کی طرف سے ملنے والی تین چھٹیوں میں، میں نے آپ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی اور 20پیسے سٹوڈنٹ ٹکٹ پر بہاولپور روڈ پر 20میل آگے چلا گیا وہاں پر ایک بلند بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، میں نے وہاں جاکر مزدوری کی۔ مزدوری تو آتی نہ تھی ٹھیکیدار نے پوچھا کہ تم کیا کرسکتے ہو؟ میں نے کہا کہ آتا تو کچھ نہیں لیکن مزدوری کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے نیچے سے اوپر مستری کو اینٹیں پھینکنے کا کام دیا۔ صبح سے شام تک نیچے سے اوپر اینٹیں پھینکتا تھا اور اس کام کے لئے انہوں کچھ روپے یومیہ مقرر کئے تھے۔ ایک اینٹ مستری پکڑنے میں ناکام رہا اور وہ سیدھی نیچے آ کر میرے پاؤں پر آگری اس طرح پاؤں کی انگلیاں زخمی ہوگئیں۔ میں نے اسے سختی سے منع کیا اور کہا کہ تمھارے تمام خرچ پورے کرنا، اور گھر کا نظم و نسق چلانا میری ذمہ داری ہے، میں اس کے لئے جہاں سے مرضی رقم کا انتظام کروں، تمھیں تمھارے اخراجات اسی طرح ملتے رہیں گے جس طرح ابا جی کی زندگی میں ملا کرتے تھے۔ آج کے بعد خبردار ایسا کام نہیں کرنا۔ پس میں قرض اٹھاتا اور اس کے ذریعے گھر کی ضروریات کو پورا کرتا، چھوٹی بہن کو تو ابھی کسی کی پہچان بھی نہ تھی۔ سب سے بڑی بہن، جس نے گھر کو سنبھال رکھا تھا اس نے ابھی سات جماعتیں پڑھی تھیں اور مڈل میں تھی کہ ابا جی کی وفات کے بعد گھر کا نظام سنبھال لیا۔ ہمشیرہ کی شادی کرنے سے پہلے گھر کا نظم و نسق چلانے کے لئے کسی خاتون خانہ کی ضرورت تھی جو دیکھ بھال کرسکے پس 1976ء میں میری شادی ہوئی اور اخراجات پہلے سے بڑھ گئے اور تمام اخراجات قرض سے چلتے رہے اس دوران میرا لاء مکمل ہوگیا۔ پریکٹس شروع کی، تو ٹریننگ کے دوران پہلے 6 ماہ وکلاء کچھ بھی نہیں دیتے لہذا اس پریکٹس کے دوران بھی قرض سے کام چلتا رہا۔

1976ء میں ’’محاذ حریت‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی تنظیم قائم کی اور جھنگ کی سطح پر نوجوانوں کو دروس قرآن و حدیث دینا شروع کئے، انقلاب کی فکر اور نوجوانوں کو متحرک کرنا شروع کیا۔ اس انقلابی فکر کو آگے پہچانے کے لئے شب و روز محنت کرتا۔ صبح کچہری جاتا اور بغیر معاوضہ کے پریکٹس کرتا، اور رات کو دور و نزدیک کے دیہاتوں میں درس قرآن دیتا، نوجوانوں کو انقلابی فکر سے روشناس کرواتا، جاوید بھائی اس محاذ حریت کا سرگرم رکن تھے۔ انقلاب کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ اس محاذ حریت کے پلیٹ فارم پر جاوید نے قرآن پر حلف دیا کہ اس انقلاب کی راہ میں آپ کو ملنے والی مشکلات کو میں اپنے سینے پر برداشت کروں گا اور کوئی میری لاش پر سے گزر کر ہی آپ تک پہنچ سکے گا۔ جاوید ایک مشنری اور انقلابی فکر کا حامل نوجوان سپاہی تھا۔

انہی کوششوں کے دوران جاوید نے کیمیکل انجینئرنگ کے امتحان دیئے اور ابھی رزلٹ نہ آیا تھا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ 1968ء میں والدہ کی وفات، 1972ء میں چچا جان (بیگم صاحبہ کے والد ماجد)، 1974 میں ابا جی کی وفات تو گویا دونوں خاندان یتیم ہوکر رہ گئے۔ چچا کے خاندان کو بھی ابا جی Look after کرتے، ابا جی کی وفات کے بعد میں گھر کے سربراہ کی حیثیت اختیار کرگیا مگر وسائل کوئی نہ تھے، 1976ء میں جاوید کی تعلیم کے مکمل ہونے پر امکان تھا کہ گھریلو وسائل کے حوالے سے میرا بازو بنے گا مگر اس کی وفات ہوگئی۔

اس کا علاج کروانے کے لئے میرے پاس پیسے نہ تھے، لاہور لانے کے لئے وسائل نہ تھے جھنگ تک ہر ممکن علاج کرواتا رہا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا۔ اس کے گردے فیل ہوگئے اور ہبمرج ہوگیا آخری دن میں اس کے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ لینے گیا تھا۔ دن کو گیارہ بجے میری تصویر کو سینے اور آنکھوں سے لگاتا، چومتا اور زارو قطار روتا رہا۔ گھر والوں نے کہا کہ جاوید کیوں روتے ہو؟ وہ کہتا کہ میں جا رہا ہوں۔ بہنوں نے کہا کہ حوصلہ کیوں ہار گئے ہو؟ وہ کہتا کہ میں حوصلہ میں ہوں لیکن رو اس لئے رہا ہوں کہ میں جا رہا ہوں، میرے بعد بھائی جان اکیلے رہ جائیں گے۔ انہوں نے بہت دشوار راستہ چن لیا ہے، بہت مشکل مشن کو اختیار کرلیا ہے۔ اس میں ان پر مخالفتوں اور مشکلات کے پہاڑ ٹوٹیں گے اس زمانے میں، میں نے جو مشن کے متعلق خواب دیکھے تھے ان کو سنائے تھے۔ وہ کہتا کہ آج کے زمانے میں کون کسی کے لئے جان دیتا ہے، بھائی جان تو نازک سے ہیں تو ان مشکل حالات میں ان کا ساتھی کون ہوگا؟ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ یہ تنہا رہ جائیں گے یہ کہتا ہوا زارو قطار روتا، عصر کے وقت اس نے آنکھیں کھولیں اور میرے متعلق پوچھا کہ بھائی جان کہاں ہیں؟ بتایا کہ وہ تمھاری رپورٹیں لینے گئے ہیں۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دوسری مرتبہ آنکھیں کھولیں تو پھر میرے متعلق پوچھا میں وہاں موجود نہ تھا، تیسری مرتبہ پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور میرا نام لیا تو میں کمرہ میں داخل ہوگیا۔ یہ لمحہ اس کی جان کنی کا لمحہ تھا۔ میں نے اس کے دل کو زور سے جنبش دی، حکماء و ڈاکٹر بھی موجود تھے میں نے اسے زور سے ہلایا اور آوازیں دیں اس نے آنکھیں کھولیں بھائی جان کہا اور آنکھوں سے اشارہ کیا کہ الوداع میں جا رہا ہوں اور پھر اس کی روح پرواز کرگئی۔ جاوید مشن اور زندگی میں میرا ایک سہارا تھا۔

جاوید کو غسل اور کفن خود میں نے دیا اس کی تدفین و تکفین کے لئے بھی میرے پاس رقم نہ تھی۔ جس دوست سے میں قرض لیا کرتا تھا اس کے پاس بھی اتفاقاً کوئی رقم موجود نہ تھی۔ پھر ایک اور دوست سے ایک ہزار روپے لے کر تدفین و تکفین کے انتظامات کئے جنازہ و تدفین سے فارغ ہوکر میں نے ایک قسم کھائی اور 6ماہ تک ہر روز اس کی قبر پر جاکر اس کی بلندی درجات کے لئے کچھ اعمال کرتا اور پھر میرے دل کو حوصلہ دینے کے لئے ایک رات ایسی آئی ایسا کرم ہوا کہ ایسے کروڑ بھائی بھی اس کے بدلے چلے جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ جاوید کی وفات کے بعد میں نے کئی ماہ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کئی مہینے باقاعدہ سویا نہیں، زندگی کی راحت و لذت اپنے اوپر بند کردی، اور چونکہ جاوید اپنی زندگی میرے اوپر قربان کرنے کی قسم کھاچکا تھا۔ اس لئے میں اپنے تمام اعمال و نیکیاں اسے منتقل کرنے کی دعا کرتا رہا۔

76ء میں جاوید کی وفات کی وجہ سے مجھے پہلی مرتبہ بلڈ پریشر کی تکلیف ہوئی اور اس کی وجہ سے صحت پر کافی اثرات مرتبے ہوئے، بعض اوقات چلتے چلتے گر پڑتا، اس کا اثر حافظہ پر بھی پڑا اور حافظہ تقریباً 75 فیصد سے 80 فیصد تک زائل ہوگیا۔ اس کے بعد 10فیصد سے 20فیصد تک حافظہ سے زندگی گزار رہا ہوں۔ اُس زمانے کا حافظہ ناقابل تصور ہے۔ بعد ازاں 78ء میں پہلی مرتبہ ہارٹ ٹربل ہوئی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کسی سپیشلسٹ کو دکھانے سے قاصر تھا۔ عام ڈاکٹرز آئے، دوائیاں تجویز کرتے مگر رقم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نسخہ جات بھی اسی طرح پڑے رہ جاتے، قرض اور پریکٹس سے ملنے والی معمولی آمدنی سے گھر کا خرچ بڑی مشکل سے چلتا تھا چہ جائے کہ میں اس رقم سے ادویات خریدتا۔ اس کے ساتھ ساتھ محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے دروس، انقلابی مشن کے لئے کوششیں بھی جاری تھیں۔ گویا دن کے وقت کچہری اور رات کے وقت مشنری مصروفیات، میری زندگی کا ایک حصہ بن گئیں، اور جب کبھی قرض سے ضروریات پوری نہ ہوتیں تو گھر کے زائد برتن کسی دوست کے ہاتھ بیچوا دیتا، جاوید مجید رانا صاحب کے ہاتھ بھی ایک دو مرتبہ برتن بیچنے کے لئے بھیجے اور کہا کہ میرے نام کا پتہ نہ چلے کہ کس کے ہیں؟ بس اپنا کرکے بیچ دو۔ اس طرح کبھی گھر کا پرانا فرنیچر بیچ دیا اور اس طرح گھر کے اخراجات اور بیماری کی اخراجات چلتے رہتے، اور ہر شام جرات مندانہ طریقے اور سکون کی حالت میں فکر انقلاب لیکر جھنگ کے دورے کرتا۔ لیکن ان معمولات کے باوجود گھر والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ آنے دیتا۔

اپنے علاج کو میں نے پس پشت ڈال دیا اور فیصلہ کرلیا کہ اپنے علاج کے لئے قرض نہ لوں گا۔ صرف اتنا ہی قرض لوں گا جس سے گھر کے اخراجات چل سکیں۔ ڈاکٹرز کے نسخہ جات سرہانے پڑے رہتے، وہ پوچھتے کہ آرام نہیں آیا، میرے انکار پروہ نسخہ بدل دیتے اور وہ نسخہ بھی اسی طرح پڑا رہتا چونکہ دوائی کے لئے پیسے نہ تھے اور بعض اوقات وہ اچھی غذا یخنی وغیرہ کا کہتے، مگر اس کے لئے بھی حالات اجازت نہ دیتے اور بعض اوقات پودینہ کی چٹنی جسے پنجابی میں ’’پبری‘‘ کہتے ہیں اس سے روٹی کھالیتا، لیکن بہن بھائیوں کو اس بارے کوئی کمی نہ آنے دیتا، اور اپنا کھانا الگ کمرہ میںمنگواتا تاکہ انہیں بھی پتہ نہ چلے، اور آہستہ آہستہ دودھ اور دیگر غذائیں بھی چھوڑ دیں۔ 6ماہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہی صورت حال چلتی رہی اور تین ماہ کے بعد میری بینائی بھی متاثر ہوگئی اور مجھے ایک آدمی کی بجائے دھندلے دو آدمی نظر آنے لگے۔ اس دوران محاذ حریت کے ذریعے میں اپنے مکان پر ہفتے میں تین روز تربیتی حلقے قائم کرتا تھا۔ میرے ذہن میں انقلاب کی جو سوچ تھی اس سلسلے میں نوجوانوں، وکلاء، کاروباری لوگوں اور اسکول ٹیچرز کو لیکچرز دیا کرتا تھا۔ یعنی مختلف لوگوں کا ایک حلقہ سا بن گیا تھا۔ آپ تصور کریں اس وقت بھی انقلاب کی Clarity کا یہ عالم تھا کہ محاذ حریت کے زمانے میں مبارک حسین نامی ایک شخص تھے جو کہ جوڈو کراٹے کے ماہر تھے۔ میں نے نوجوانوں کا ایک سیل بنایا اور مبارک صاحب سے کہا کہ ہم نے نوجوانوں کو انقلاب کے لئے تیار کرنا ہے لہذا آپ ان کو ٹریننگ دینے کا اہتمام کریں۔ یوں نوجوانوں کی اس انداز سے بھی تربیت شروع ہوگئی اور ساتھ ساتھ ان کی فکری تربیت کا بھی اہتمام کیا۔ وہاں کڑا بیروالا میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی چونکہ اس وقت علماء میرے خیالات سن چکے تھے تو میں نے جھنگ میں درس قرآن کا منصوبہ بنایا اگرچہ میں طالب علمی کے زمانے میں مساجد اور سٹیج پر بھی تقریریں وغیرہ کرتا رہتا تھا مگر جب انقلاب کے نقطہ نظر سے میں نے درس کا منصوبہ بنایا تو جو بریلوی مسلک کے سخت مزاج علماء تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی مسجد میں درس کی اجازت نہ دی۔ جھنگ میں بریلوی مکتبہ فکر کی جتنی مساجد تھیں ان کا سروے ہمارے محاذ حریت کے لوگوں نے کیا کہ یہاں پر قادری صاحب کا درس قرآن شروع کروانا ہے مگر تمام علماء نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے قادری صاحب تو بریلوی نہیں ہیں لہذا ہم انہیں مسجد میں درس کی اجازت نہیں دے سکتے جب دیوبندی مکتبہ فکر کی مساجد سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے دلیل پیش کی چونکہ قادری صاحب دیوبندی نہیں ہیں لہذا انہیں ہم اپنی مسجد میں درس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اہلحدیث کی مساجد میں گیا تو انہوں نے بھی انکار کر دیا۔ یوں ان لوگوں نے درس قرآن کے میرے سارے دروازے بند کردیئے محض اس جرم کی پاداش میں کہ بریلوی کہتے ہیں قادری صاحب بریلوی نہیں ہیں وہابی ہوگئے ہیں۔ دیوبندی کہتے ہیں قادری صاحب بریلوی ہیں ہم ان کو درس کی اجازت نہیں دیتے۔ اہلحدیث کہتے ہیں یہ سنی ہیں ہم ان کو تقریر نہیں کرنے دیتے۔ بقول اقبال

زاہد نظر نے مجھے کافر جانا
کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

یعنی یہاں سے ایک قسم کے Clash کا آغاز ہوگیا۔ میرے افکار جب عام ہوئے تو بعض متعصب قسم کے علماء نے اتحاد امہ کا نقطہ سن کر میرے اوپر کفر کے فتوے لگا دیئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ قادری صاحب تو بریلویوں، دیوبندیوں، شیعوں اور اہلحدیث ساروں کو مسلمان کہتے ہیں یہ تو کوئی نیا فرقہ آگیا ہے۔ یہ تو مسلمان نہیں یہ تو کافر ہیں جو کہ سارے فرقوں کو مسلمان کہتا تھا چونکہ ان کے ہاں تو تصور یہ تھا کہ بریلوی، دیوبندیوں کو مسلمان نہ سمجھیں، دیوبندی بریلویوں کو مسلمان نہ سمجھیں۔ یہ شیعوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور شیعے ان کو مسلمان نہ سمجھیں۔ یعنی یہ سب ایک دوسرے کو کافر اور مشرک جانیں چنانچہ جب اس دائرے سے بات نکل گئی اور ہم ایک اور تصور پر چل پڑے تو یہ مسائل شروع ہوئے پھر ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے صحن اور کمرے میں بمشکل چالیس آدمی بیٹھ سکتے تھے وہاں پر میں نے درس قرآن شروع کیا جبکہ باقی لوگ باہر گلیوں میں شامیانے لگا کر اور صفیں بچھا کر بیٹھتے تھے۔ ہفتے میں تین راتیں محاذ حریت کے عنوان سے درس قرآن دیا۔ اس کے بعد سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلابی پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے جھنگ میں خطبات سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر میں نے جھنگ ضلع کے اندر اپنے محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ یہی وہ دور ہے جب بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ چلی۔ میں بچپن سے لے کر آج تک نہ کسی مذہبی جماعت کا ممبر رہا ہوں، نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہا اور نہ کسی طالب علم تنظیم کا لائف ممبر ہوں۔ میں نے تو اپنا پورا ارتقا بتا دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور فکر میں ضم ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو اپنی ایک ڈگر پر چلا جا رہا تھا۔ تحریک نظام مصطفیٰ میں تو ہم محاذ حریت کے حوالے سے شامل ہوئے تھے۔ بھٹو کے خلاف جو تحریک نظام مصطفیٰ چلی۔ میں نے تین ماہ تک اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ہمارے لوگ جلوسوں میں شامل ہوگئے۔ میں نے ان جلوسوں کی قیادت بھی کی جہاں ہم پر گولیاں چل رہی تھیں۔ جابجا چوٹی کے اجتماعات سے خطاب کئے۔ جھنگ کی سطح پر محاذ حریت کے حوالے سے میں نے اپنے انقلابی فکر کو اتنا پھیلایا کہ Point of Sturation آگیا۔ وہ ایک پس ماندہ ضلع تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آگے اس کی عملی صورت کیا ہو۔ اس کو انقلابی تنظیم کو تحریک میں بدلنے کیلئے کیا اقدام کیا جائے۔ پھر جب تحریک نظام مصطفیٰ چل چکی مارشل لاء کا نفاذ ہوگیا اور بھٹو صاحب کا دور ختم ہوگیا تو نظام مصطفیٰ کی تحریکیں چلانے والے مارشل لاء حکومت میں چلے گئے۔ کئی الگ ہوگئے۔ اس کے علاوہ پی پی پی سے جو لوگ نکلے وہ بھی دھڑا دھڑ دوسری جماعتوں میں شامل ہونے لگے بعض کو تو ٹکٹوں سے بھی نوازا گیا۔ یوں انہوں نے اس تحریک نظام مصطفیٰ کی جو تذلیل کی اور اپنے کردار سے قوم کو جتنا مایوس کیا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت میں نے ایک کتابچہ لکھا ’’نظام مصطفیٰ ایک انقلاب آفریں پیغام‘‘ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ میں نے 1978ء میں جو کچھ لکھا ان کو پڑھ کر آدمی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ جو کچھ بعد میں ہوا اور ہو رہا ہے۔ کیا یہ ایک پلاننگ کے تحت ہوا ہے یا حادثاتی طور پر ہوا ہے۔ اس کتابچے میں، میں نے بتا دیا تھا کہ اس تحریک اور انقلاب کے لئے جو Requirement ہیں وہ یہ لوگ پوری نہیں کر رہے اور اس کے بجائے کن ترجیحات کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔ معاشی انقلاب پہلے آئے یا سیاسی اخلاقی اور روحانی انقلاب پہلے آئے۔ ان سب موضوعات پر میں نے اپنی کتاب میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو کہ میری زندگی کی پہلی تحریر تھی۔ اس کتاب کو ہم نے مفت تقسیم کیا۔ پھر 1978ء میں جھنگ میں ہی اس کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ کہنے کو یہ تقریب تھی مگر دراصل یہ بہت بڑا علمی اور ادبی نوعیت کا اجتماع تھا۔ اس میں ڈاکٹر برہان احمد فاروقی بھی تشریف لائے۔ فیصل آباد سے حکیم محمد اشرف صاحب تشریف لائے جو اہلحدیث مکتبہ فکر سے ہیں۔ لاہور سے قاضی عبدالنبی کوکب بھی گئے۔ غالباً ان کی زندگی کی آخری تقریب تھی۔ اس تقریب کے دو تین روز بعد خبر آئی کہ وہ انتقال کرگئے ہیں۔ بہر کیف جھنگ کی تاریخ کا یہ عظیم الشان علمی اور ادبی اجتماع تھا۔ ہم نے اس تقریب کی خبریں تمام اخبارات میں بجھوائیں مگر کسی اخبار نے دو سطریں بھی شائع نہ کیں۔ اس کے بعد ہم نے محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے ایک اجلاس کیا اور ہم نے سوچا کہ اگر ہم جھنگ بیٹھے رہے تو جھنگ میں اس سے بڑی تقریب کوئی اور تو ہو نہیں سکتی۔ اس دوران میں چالیس سے پچاس ہزار تک کے جلسہ عام سے میں خطاب کرچکا تھا مگر کہیں دو سطریں بھی چھپنے کے چانس نہیں تھے۔ جب سارا کچھ کرکے بھی دوسروں کو Activities کی اطلاع نہ پہنچے، چاروں صوبوں تک آواز نہ پہنچے تو صاف ظاہر ہے کہ فکر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ فکر آگے نہ بڑھے تو یہ تحریک میں نہیں بدلے گا۔ تحریک میں نہیں بدلے گی تو انقلاب کے مرحلے نہیں آئیں گے۔ ہم نے سوچا کہ یہاں بیٹھ کر تو محض وقت ضائع کرنے والی بات ہے چنانچہ ہم نے میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ اب ہمیں جھنگ سے لاہور منتقل ہوجانا چاہئے اور وہاں جاکر ترتیب سے مرحلہ وار کام کا آغاز کرنا چاہئے۔ یوں ہم نے جھنگ سے لاہور منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے میں نے گھر میں اپنی فیملی اپنی اہلیہ اور دوسرے بہن بھائیوں کو مطلع کر دیا کیونکہ والد صاحب کا تو انتقال ہوچکا تھا اب میں ہی اپنی فیملی کا سرپرست تھا اس لئے گھر میں میرے فیصلوں کو بھلا کس نے روکنا تھا اب مجھ سے فیملی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ لاہور جا کر کیریئر کیا ہوگا۔ روزگار کا کیا بنے گا۔ کہاں سے کھائیں گے، کیا کریں گے؟ میں نے ان سے کہا : اللہ مالک ہے۔ اب جھنگ میں ہماری جائیدادیں تو موجود تھیں مگر اس سے آمدنی تو کوئی نہیں تھی۔ آمدنی تو وہی تھی جو والد قبلہ کی پریکٹس تھی اور ان کے وصال کے بعد صرف میری ملازمت پر ہی سارا انحصار تھا مگر مجھے یقین تھا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اتحاد کا جو مشن لے کر چلا ہوں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کیریئر کا کوئی ذریعہ خود ہی فراہم کردے گا۔ مجھے مایوسی اس لئے کبھی نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیاوی صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ میرا خیال تھا پنجاب یونیورسٹی لاء کالج جوائن کرلوں گا، یاہائیکورٹ میں جاکر بطور ایڈووکیٹ پریکٹس شروع کردونگا۔

بہر کیف یہ فیصلہ ہوگیا کہ مشن کے کام کو لاہور میں بیٹھ کر مرحلہ وار شروع کیا جائے۔ اپریل 1978ء میں لاہور شفٹ ہوگیا۔ ملازمت کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کو ترجیح دی۔ میں مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب سے ملا۔ ان کے ابا جی قبلہ سے میرے طالب علمی کے زمانے سے ہی مراسم تھے۔ ان سے میں مشورے کی غرض سے ملا تھا تو انہوں نے مجھے جسٹس شمیم قادری سے ملوایا۔ میں کچھ اور سینئر وکلاء سے بھی ملا۔ تین چار روز تک ہائیکورٹ اور ایڈوکیٹس کے دفاتر کا بھی جائزہ لیا اور پھر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے ہائی کورٹ کی پریکٹس نہیں کرنی چاہئے۔

PAF ایجوکیشن کور میں ایک پوسٹ آئی، اس میں درخواست دی، سلیکشن ہوگئی اور آخری انٹرویو کے دوران انہیں کہا کہ میں ایک انقلاب کا مشن رکھتا ہوں کیا اس سروس کے دوران مجھے مشنری کام کرنے کی اجازت ہوگی؟ انہوں نے انکار کر دیا۔ انکار پر میں نے اس سروس کو بھی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب میرے پاس دوسری Option لاء کالج میں لیکچرر شپ کی تھی۔ چونکہ میرا کیریئر بہت اچھا تھا اس لئے انہوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فوراً سلیکشن کا خط آگیا۔ اس طرح مجھے لیکچرر شپ مل گئی۔ گھر خبردی اور گھر کا جملہ سامان سوائے بیگم صاحبہ کے جہیز کے تمام رشتہ داروں اور غرباء میں بانٹ دیا، اور جھنگ سے ہجرت کرکے لاہور آگئے، اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ گریڈ 17 اور تنخواہ 900روپے تھی، نیو کیمپس ہوسٹل کے فلیٹ میں رہائش مل گئی، اور بعد ازاں لاء کالج ہوسٹل کی سپرنٹنڈنٹ شپ اور وارڈن شپ مل گئی اس دوران فاطمہ بیٹی اور حسن پیدا ہوچکے تھے اور حسن تقریباً 6 ماہ کا تھا جب ہم جھنگ سے لاہور شفٹ ہوئے، 900روپے میں بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلتا، مشن کی مصروفیات یہاں بھی شروع کردی تھیں، علماء جامعہ نظامیہ و نعیمیہ سے رابطہ، مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب سے رابطہ وغیرہ لوگوں کا گھر میں آنا جانا، ان کی خاطر تواضع حلقہ احباب کا وسعت اختیار کرجانا، ان تمام وجوہات کی بناء پر گھر کا بجٹ مزید مشکلات کا شکار ہوگیا۔ بچوں کے دودھ کے لئے کبھی چینی بھی نہ بچتی اور کبھی دودھ بھی نہ ہوتا تو آم کے مربہ کا شیرہ دودھ کو میٹھا کرنے کے لئے استعمال کرتے، کبھی بچے دودھ کے لئے رات بھر روتے رہتے۔ اس سلسلہ میں بچوں کی والدہ کا کردار قابل رشک ہے، انہوں نے اس انقلاب کے سفر کے اوائل میں بڑی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے۔ انہوں نے نوعمری کے باوجود نہایت تعاون کیا۔ گویا بچے بھی ہمارے ساتھ فاقے میں شریک ہوتے۔

بچوں کے کپڑوں کے لئے لنڈا بازار جاتے، وہاں سے کپڑے خریدتے اور بچوں کے ناپ کرنے کے بعد انہیں پہناتے۔ سفر تمام ٹانگوں اور ویگنوں پر گزرتا۔ مشن کے کاموں کے لئے بیرون شہر دوروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس کے لئے بھی اخراجات چاہئے تھے اور گھر پر مزید بوجھ پڑ گیا۔ اس دوران لاء کالج کے ہوسٹل میں شفٹ ہوگئے۔ سالہا سال تک کوئی مہینہ ایسا نہ گزرا جس میں آٹھ سے دس دن فاقوں کے نہ گزرتے ہوں لاء کالج ہوسٹل کے سرکاری ملازم بھی ہم سے کھانا لے جاتے، اور وہ بھی جب چولہا ٹھنڈا دیکھتے تو وہ بھی سمجھ جاتے کہ صاحب جی کے گھر آج فاقہ ہے چنانچہ وہ بھی چلے جاتے اور ہم ان کو دکھی روانہ کردیتے، ان کو دینے کے لئے پیسے بھی نہ تھے کہ جس سے ان کی مدد کردیتے بعض اوقات تندور سے روٹی لگوانے کے لئے 60پیسے بھی نہ ہوتے اور محض اس وجہ سے آٹا ہوتے ہوئے فاقہ ہوجاتا اور بعض اوقات چولہے کے لئے مٹی کا تیل بھی نہ ہوتا اور کبھی روٹی ہے سالن نہیں تو اس صورت میں روکھی روٹی کھالی، کبھی پانی سے اور کبھی شیرہ سے روٹی کھالیتے، اور یہ صورت حال سالہا سال تک چلتی رہی اور منہاج القرآن کا آغاز ہوچکا تھا۔ لاء کالج ہوسٹل میں مقیم 800 طلبہ کے لئے میس کا انتظام موجود تھا ایک دن ملازمہ نے بیگم صاحبہ سے کہا کہ آپ صاحب جی کو کہیں کہ وہ ہوسٹل کے تندور سے روٹی لگوا لیا کریں۔ بیگم صاحبہ نے اس سلسلہ میں میرے ساتھ بات کی تو میں نے کہا کہ آٹا تو ہمارا ہوگا مگر جن لکڑیوں کی آگ جلتی ہے اس میں ہمارا پیسہ نہیں اس میں طلبہ کے پیسے ہیں ان طلبہ کے پیسوں کی لکڑیوں سے جلنے والی آگ سے روٹی پکوا کر آپ کو کھلاؤں تو دوزخ کی آگ سے آپ کو کیسے بچاؤں گا یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ میں وارڈن کے طور پر اس ہوسٹل میں دو سال تک رہا اور مجھے اس دوران وہاں کے پکنے والے سالن کا ذائقہ تک معلوم نہیں کبھی چکھ کر نہیں دیکھا۔

اسی زمانہ میں ہوسٹل کے لئے 16من چینی کا کوٹہ آتا، اور سابقہ وارڈن بچ جانے والی چینی جو انہیں سرکاری ریٹ 4روپے فی کلو کے حساب سے ملتی تھی، اسے بازار کے ریٹ 16روپے کلو کے حساب سے بیچ کر منافع کماتے جبکہ ہمیں ملنے والی چینی جب ختم ہوجاتی تو ہم 16روپے کلو کے حساب سے خریدتے اور بعض اوقات خرید نہ سکنے کی وجہ سے پورا مہینہ بغیر چینی کے بسر کرتے۔ میں بچ جانے والی چینی ہوسٹل کے ملازمین کو 4روپے کے حساب سے دے دیتا اور کہتا کہ آپ کی مرضی ہے اسے بیچیں یا گھر میں رکھیں۔ ملازمہ نے بیگم صاحبہ کو کہا کہ آپ بھی 4روپے کی حساب سے خرید لیا کریں۔ بیگم صاحبہ نے مجھ سے اس کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست اور جائز ہے مگر پیسے دیتے ہوئے مجھے ایک یا دو افراد دیکھیں گے اور چینی لاتے ہوئے کئی افراد کی نظریں پڑیں گی اور ان کے دل اور ذہن میں کئی خیالات آئیں گے کہ شاید یہ چینی مفت میں جا رہی ہے۔ اس لئے میں بیٹھے بٹھائے اپنے سر یہ الزامات کیوں لوں؟ اور کس کس کو اس بابت صفائی دیتا پھروں۔

اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس آنے جانے کا کرایہ 50پیسے تھا، بعض اوقات یونیورسٹی بس میں جانے کے لئے یہ 50پیسے تک نہ ہوتے مگر اللہ رب العزت کی عزت کی قسم، جب ایسی صورت حال ہوتی جیب میں کرایہ نہ ہوتا، پڑھانے کے لئے گھر سے نکلتا تو کوئی نہ کوئی طالب علم کار لئے آ جاتا کہ سر میری خواہش ہے کہ آج میرے ساتھ چلیں، اور یہ سال ہا سال تک سلسلہ رہا کہ جب پیسے نہ ہوتے تو کار والے طلباء آجاتے اور بضد ہوجاتے کہ آج ہمارے ساتھ چلیں اور جب کرایہ ہوتا تو کوئی بھی نہ آتا۔ اس طرح اللہ اپنے کام کرنے والوں کو نوازتا رہتا ہے۔ اس طرح زندگی فاقوں کے ساتھ گزرتی رہی، منہاج القرآن کا آغاز ہوچکا تھا۔ جب حسین بیٹے کی پیدائش ہوئی تو گھر میں پیسے نہ تھے۔ چار پانچ ماہ سے ڈلیوری پر آنے والے اخراجات کے لئے پیسے بچا کر رکھ رہے تھے۔ ایک جمعہ پر انفاق فی سبیل اللہ پر خطاب کرنا تھا۔ چنانچہ خطاب کرنے سے قبل میں نے بیگم صاحبہ کو کہا ’’ضرورت سے زائد رقم خرچ کرنا بہتر ہے‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا ہے۔ ہم نے جو پیسے بچا کر رکھے ہیں اس کو اگر خرچ نہ کیا تو میری طبیعت پر بوجھ رہے گا، کہہ کیا رہا ہوں اور کر کیا رہا ہوں۔ اس لئے چاہتا ہوں کہ اس جمع پونجی کو تقسیم کردوں، چنانچہ وہ پیسے تقسیم کر دیئے۔

ڈلیوری کے وقت کوئی رقم پاس موجود نہیں تھی۔ ہسپتال میں بیگم صاحبہ کو ڈلیوری سے 24گھنٹے قبل داخل کروا دیا اور کہا کہ تمام اخراجات آخر پر ادا کردوں گا۔ اگلے دن کراچی میں پروگرام تھا انہیں اسی حالت میں چھوڑ کر کراچی چلا گیا وہاں جا کر فون پر معلوم ہوا کہ اللہ نے بیٹا عطا کیا ہے۔ چنانچہ قریبی رشتہ دار آئے اور بچے کو پیسے دیتے یہ 900روپے بنے۔ ہسپتال کا خرچ بھی تقریباً 900روپے بنا اور اس طرح ہسپتال کے اخراجات کا انتظام ہوا۔

سمن آباد جس مکان میں رہتا اس کا کرایہ بھی ادھار رہا۔ وہ تقریباً 20ہزار روپے بنا، اس کو میں لکھتا رہتا، ایک وقت آیا ان کو ضرورت پڑی تو انہیں اس سے بڑھ کر ادا کیا۔ جھنگ میں جو ادھار لئے انہیں ایک وقت آیا دوگنا کرکے ادا کیا۔ جس سے جاوید بھائی کے کفن دفن کے لئے رقم لی تھی دوگنی واپس کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی کا ادھار چھوڑا نہیں تمام کو ان کے پیسے واپس کئے۔ کسی سے ادھار کرکے نہ لیا اور نہ کسی کو ادھار کہہ کے ادائیگی کی اور اگر کسی کو ادھار کا کہہ کر لیا اس کو بھی پائی پائی لوٹا دی۔

اس روئے زمین پر کوئی ایک ایسا شخص نہیں جس کا ایک پیسہ بھی ادھار مجھ پر باقی ہو سب کو ادا کر دیا ہے۔ اس کے برعکس جس کو میں نے ادھار دیا اس سے زندگی میں کبھی واپس نہ لیا۔ شہرت کی وجہ سے لوگ مالی طور پر بھی اچھی ساکھ کا سمجھتے تھے اور یہاں تک کہ اندرونی گھریلو کیفیت کا قریبی رشتہ داروں تک کو معلوم نہ تھا۔ ایک شخص آیا اس نے 1500روپے کے عوض اپنے زیورات چھڑوانے تھے اس نے 1500روپے ادھار مانگ لئے، میرے پاس رقم نہ تھی میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے صبح لے لینا، میں نے راتوں رات کسی سے ادھار پکڑا اور صبح اس شخص کے گھر جاکر اس کو دیئے تاکہ وہ اپنے زیورات چھڑوا سکے، بعد میں وہ رقم واپس لے کر آیا میں نے لینے سے انکار کر دیا اور اسے لوٹا دیئے۔ کسی نے اس زمانے میں 5ہزار روپے ادھار مانگے، میں نے ادھار اٹھا کر اس کو دیئے۔ اپنا ادھار چکاتا رہا مگر کسی سے ادھا ر واپس نہ لیا۔ یہ زندگی بھر کا معمول رہا۔

لاہور شفٹ ہونے سے پہلے ہی ہم نے تخمینہ یہ لگایا تھا کہ جب میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ملازمت شروع کروں گا تو انقلابی تحریک کے آغاز کے لئے کن کن مراحل سے گزرنا ہوگا۔ اس وقت تک منہاج القرآن وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ اس وقت اس ادارے کا نام ہی ہمارے ذہن میں تھا۔ چنانچہ اس مرحلے پر تحریک شروع کرنے سے پہلے آغاز میں مجھے پاکستان کی سطح پر متعارف ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ لوگ میرے نام سے واقف ہوں پھر میں پاکستان کے مختلف حصوں میں خطاب کروں تاکہ لوگ میرے فکر سے واقف ہوں۔ میری علمی استعداد سے واقف ہوں۔ رابطے ہوں، حلقہ تعارف بڑھے اور جب رفتہ رفتہ ملکی سطح کی حد تک جب میری Recognition ہوجائے یعنی پہلے تعارف کے مرحلے سے گزروں اور پھر اس کے بعد تنظیم کے قیام کے بارے میں سوچوں اور جب اس زمرے میں کامیابی ہو جائے تو پھر میں پنجاب یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑ دوں۔ یہ ساری منصوبہ بندی لاہور آنے سے پہلے ہم نے جھنگ میں بیٹھ کر ہی کرلی تھی۔ جھنگ سے لاہور شفٹ ہوتے ہوئے جب میں نے لاء کالج جوائن کیا تو ہم نے میٹنگ میں اندازہ لگایا تھا کہ مجھے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کی سروس شاید دس سال تک قائم رکھنا پڑے گی۔ مگر وہ مقام جو یونیورسٹی چھوڑنے کے دس سال بعد آنا تھا۔ وہ الحمدللہ پانچ سال میں آگیا۔ اب آگے درجے تھے یعنی انقلاب کو آگے متعارف کروانا پھر اپنی فکر کو متعارف کروانے کے لئے آپ کو چینلز درکار ہوتے ہیں۔ اس میں ایک ذریعہ میری تحریر ہے مجھے کتابیں لکھنا تھیں اس حوالے سے علمی ادبی اور فکری حلقوں میں متعارف ہونا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تقاریر کرنا تھیں، درس دینے تھے تاکہ اس کے ذریعے بھی میرا تعارف ہو۔ یہ سب مختلف چینلز تھے۔ جن کو Adopt کرکے آگے پہنچنا تھا۔ جب پنجاب یونیورسٹی لاء کالج آ کر میں نے کام شروع کیا تو یہاں اساتذہ کا پورا حلقہ تھا اور وہ لوگ جو وہاں پچیس پچیس سال رہ کر بھی کوئی مقام اور درجہ حاصل نہیں کرسکے تھے اللہ تعالیٰ نے دو ڈھائی سال میں مجھے وہ عطا کر دیا اور میں نے اس دوران یونیورسٹی سینڈیکیٹ، سینٹ اور اکیڈمی کونسل کے تینوں الیکشن جیت لئے۔ ان دو اڑھائی سالوں میں یونیورسٹی کے اندر میرے Recognition کو فروغ ملا۔ پھر میں سینڈیکیٹ آگیا اس کے بعد اکیڈمک کونسل اور پھر سینٹ میں آگیا۔ مجھے اپنا تو کوئی لالچ نہیں تھا۔ میں نے اپنی ذات کے لئے اس قسم کی کوئی طلب رکھی ہی نہیں۔ میں تو وہاں غیر جانبدار ہوکر لیکچرارز کی خدمت کیا کرتا تھا ان کے کیس لڑا کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں میرا ڈھائی تین سال کے کام کا جو ریکارڈ ہے اس نے پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے اندر اس مقام کو اور بھی اونچا کر دیا۔

میرا ایک تو یہ پہلو تھا جس کا ابھی میں نے ذکر کیا دوسرا فکری پہلو تھا۔ میں نے چار پانچ سال یونیورسٹی میں علمی لیکچرز دیئے۔ جس موضوع پر میں نے لیکچرز دیئے۔ اتفاق سے اس موضوع پر اے کے بروہی نے بھی آ کر لیکچرز دیئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے لوگوں نے ایک ہی موضوع یعنی اسلامک لاء پر ہم دونوں کی گفتگو سنی۔ چنانچہ اگلے دن جب میں لاء کالج آیا تو پانچ سو طلباء نے مل کر مجھے سیلوٹ مارا۔ انہوں نے کہا عزت تو آپ کی پہلے بھی کرتے تھے مگر جب تک کسی کے ساتھ موازنہ کرکے نہ دیکھا جائے تو قدر کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم نے اسلامک فلاسفی اور اجتہاد پر آپ کا لیکچر بھی سنا اور بروہی صاحب کا بھی سنا اور اب ہم نے دیکھا کہ Where do you Stand اسی وجہ سے بعد میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی میرے لیکچرز ہوئے پھر باہر سے بھی دعوتیں آئیں۔ اس وقت تو میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ایک عام لیکچرار تھا مگر اللہ کا فضل تھا کہ میرا پس منظر بہت دینی علمی اور فکری تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان گومل یونیورسٹی میں میرے لیکچرز ہوئے۔ بار میں اسلامک لاز پر لیکچرز ہوئے اس طرح جب میری کارکردگی عوام کے سامنے آئی تو اس کے نتیجہ میں مجھے فیڈرل شریعت کورٹ نے اسلامک ایجوکیشن کے ماہر کے طور پر فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن میں بطور ممبر نامزد کر دیا۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ضیاء الحق نے کروایا حالانکہ ضیاء الحق سے کوئی ملاقات رابطہ اور شناسائی کچھ بھی نہیں تھی۔ یہ سب اللہ کے فضل سے ہوا تھا۔ اس کے بعد کراچی سے پشاور تک میرے لیکچرز ہوئے جگہ جگہ میرے خطابات ہوئے مقالے اور تحریریں چھپیں۔ تھوڑی بہت کتابیں بھی چھپنا شروع ہوگئیں۔

جب میں فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کا ممبر ہوا تب میری مزید کارکردگی سامنے آئی۔ میں سب سے نوعمر ممبر تھا جب کہ باقی ممبران ساٹھ سال کے لگ بھگ تھے ان میں فل پروفیسرز اور معمر سفید ریش عالم ہوتے تھے مگر جب Representation کی باری آتی تو وہ سارے پروفیسرز اور بزرگ ممبران مجھے ہی اپنا نمائندہ بناتے اور کہتے کہ اس کیس کو قادری صاحب ہی ڈیل کریں گے۔ اس طرح قومی سطح پر میری Recognition اور بڑھی اور مجھے مزید خدمات کا موقع ملا۔ جب اسلامک لائبریری میں میری Expertise آگئی تو پھر ایک روز مجھے براہ راست چٹھی آگئی جس میں لکھا تھا کہ آپ کی فیڈرل شریعت کورٹ میں بطور ’’جیورسٹ کنسلٹ‘‘ تقرری کی جاتی ہے۔ جسے میں نے قبول کر لیا۔

اس کے بعد فیڈرل شریعت کورٹ میں قومی نوعیت کے تین چار بڑے بڑے کیس آئے۔ ان میں ایک رجم کا کیس تھا۔ رجم کو انہوں نے غیر شرعی قرار دے دیا تھا پھر میں نے اس مسئلے پر چار روز تک طویل دلائل دیئے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے بنچ نے میرے دلائل سن کر اپنا صادر شدہ فیصلہ جو چھپ گیا تھا۔ اس کو تبدیل کر دیا۔ اس کیس نے کراچی سے پشاور تک پورے ملک میں ایک دھوم مچا دی۔

1980ء کے آخر میں شادمان میں درس قرآن شروع کیا۔ اسی اثناء میں میں نے ادارہ منہاج القرآن قائم کرلیا۔ وہاں درس قرآن شروع کیا جسے بعد میں آرگنائز کیا۔ یوں میں درجہ بدرجہ اپنی پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ جب میں نے دیکھا کہ درس قرآن سے حلقہ بن گیا تو پھر ایک روز میں نے سارے درس قرآن کے شرکاء اور وابستگان کو جمع کیا اور کہا کہ آج میں آپ سے ایک خاص بات کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے درس قرآن تو شروع کر دیا ہے لیکن میرا مقصود زندگی بھر صرف درس قرآن تو دیتے رہنا نہیں بلکہ درس قرآن کے ذریعے میں بہت بڑا عالمی انقلاب چاہتا ہوں اور یہی اس کی بنیاد ہے کیونکہ قرآن کے فکر کو عام کرنا چاہتا ہوں اس کے ذریعے عالمی سطح پر نظام کو بدلنے کیلئے ایک انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ پھر دوستوں کے صلاح مشورے سے میں نے قرآن پاک سے منہاج القرآن کے بیس پچیس نام منتخب کئے اور اپنے سارے ساتھیوں کو شادمان میں جمع کیا۔ یوں باہمی مشورہ سے منہاج القرآن کا نام منتخب کرلیا۔ پھر اس کا ایک آئین بنایا اور ممبر شپ کا آغاز کر دیا۔ منہاج القرآن کے تحت میں نے اسلام آباد اور کراچی میں درس قرآن شروع کیا۔ پشاور اور کوئٹہ سے بھی لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے علاقے سے درس قرآن شروع کیا جائے۔ اس طرح منہاج القرآن کی تنظیم کے دفاتر پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں بھی کھولے گئے۔ اس کے بعد جب میں نے اسلام آباد میں درس قرآن شروع کئے تو ان میں پورے صوبوں کے لوگ آنا شروع ہوگئے۔ اس طرح پورے پاکستان کے اندر میرا ایک حلقہ تعارف اور انقلابی پس منظر سا بن گیا۔

83ء میں جب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علالت حد سے بڑھ گئی اور ڈاکٹرز نے جواب دے دیا۔ اس وقت آپ امریکہ علاج کے لئے روانہ ہوئے اس کے بعد کیا ہوا انہی کی زبانی۔

’’جب میری بیماری حد سے بڑھ گئی اور علاج کے لئے باہر جانے لگا تو میرے پاس جو رقم تھی وہ Invest کردی کہ بعد میں بچوں کے کام آئے گی اور بیگم صاحبہ کو بلا کر کہا کہ شاید زندہ پلٹ کر آؤں گا یا نہیں لیکن میری یہ دو نصیحتیں یاد رکھ لیں اور وصیت ہی سمجھ لیں کہ جھنگ کے مکانات بیچ کر ان سے حاصل شدہ رقم آپ کی ہوگی کیونکہ بہن بھائیوں کے حصے انہیں ادا کرچکا ہوں۔ یہاں تک کہ میں نے ابا جی کی لائبریری جو انہوں نے صرف مجھے دی تھی کی بھی قیمت لگوا کر ازروئے شرع اس میں سے بھی حصہ بہن بھائیوں کو دیا۔

دوسری وصیت یہ کی کہ اگر میرے بعد چاہیں تو دوسری شادی کی بھی اجازت ہے تاکہ بعد والی زندگی میں کوئی مشکل نہ آئے۔ بیگم صاحبہ روپڑیں اور کہا کہ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو میں بقیہ زندگی آپ کے نام پر ہی گزاروں گی۔ ان وصیتوں کے بعد میں امریکہ، علاج کے لئے چلا گیا علاج کروایا، آخری دن ڈاکٹرز مجھے اکیلے میں لے گئے۔ ڈاکٹر روزن فولڈ اور ڈاکٹر ٹائبر میرے معالجین میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ کیا آپ اپنی بیماری کی نوعیت کی وجہ سے یہ جانتے ہیں کہ آپ کی کتنی زندگی باقی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی زندگی زیادہ سے زیادہ 3ماہ سے 6ماہ تک ہے۔ اس سے زیادہ آپ کا دل کام نہیں کرسکتا اور موت یقینی ہے۔ ہم نے آپ کو اس لئے بتایا کہ آپ اپنی فیملی کے بارے میں منصوبہ سازی کرلیں۔ ڈاکٹروں کے ان ریما رکس کے بعد میں نے شیخ سعید صاحب (واشنگٹن ڈی سی) کو عمرہ کا ویزہ لگوانے کا کہا۔ امریکہ ایمبیسی نے یہ کہہ کر ویزہ لگانے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارا قانون نہیں، یہاں علاج کے لئے آئے ہیں اگر عمرہ کرنا ہے تو پاکستان سے ویزہ لگوا کر آئیں۔ میرے کہنے پر شیخ سعید صاحب دوبارہ گئے مگر اس مرتبہ بھی انہوں نے ویزہ لگانے سے انکار کر دیا۔

تیسری رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے حاضری کا اجازت نامہ مل گیا۔ اگلے دن میں نے پھر انہیں ویزہ لگوانے کے بارے میں کہا، انہوں نے کہا کہ میں وہاں نہیں جاؤں گا۔ دو مرتبہ وہ انکار کرچکے ہیں۔ اب مناسب نہیں۔ میں نے کہا کہ اب وہ انکار نہیں کریں گے۔ میرے اصرار پر وہ گئے اور ویزہ لگ گیا۔

63ء میں، پہلی مرتبہ والدین کے ساتھ حاضری پر گیا تھا اور اب 20سال بعد یعنی 83ء میں دوبارہ حاضری کے لئے گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حال عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی بارگاہ میں عمر اور زندگی مانگنے نہیں آیا۔ اگر کوئی ڈیوٹی / نوکری نہیں ہے تو زندہ رہنے کا خواہش مند میں نہیں اور اگر کوئی نوکری یا ڈیوٹی ہے آپ نے کچھ کام لینا ہے تو خود ہی بندوبست کرلیں اور عرض کیا کہ اگر زندہ رہا تو زندگی کا ایک سانس اور ایک لمحہ بھی کاروبار دنیا / معاش کے سپرد نہیں کروں گا اور آخری سانس تک آپ کی نوکری میں صرف کروں گا۔ واپس آیا تو ہارٹ کی ایجکشن فریکشن جو بہت زیادہ کم ہوگئی تھی اور زندگی کی امید ختم ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی 6ماہ کی مدت کے دوران ایجکشن فریکشن بتدریج بڑھتی چلی گئی ابھی 6ماہ کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ 17رمضان المبارک کی رات، نماز تراویح کے وقت میری حالت غیر ہوگئی۔

سجدہ میں گرگیا پھر اٹھ نہ سکا، مجھے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دل نے تقریباً کام کرنا چھوڑ دیا۔ بلڈ پریشر اتنا نیچے جاچکا ہے کہ دل اسے اٹھا نہیں سکتا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ دل 6ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹروں کی بات پوری ہوگئی۔ 17رمضان کا دن آگیا میں نے گھر والوں سے کہا کہ آج مجھے روزہ رکھوا دیں کہ شاید آج بلاوے کا دن ہے، حالت غیر ہونے کے باوجود میں نے روزہ رکھ لیا۔

دوپہر کے وقت نیند میں تھا کہ ایک اور کرم ہوا اور اس دن سے ایک نیا سفر زندگی شروع ہوگیا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کینسل کردی گئی اور اللہ کا امر جاری ہوگیا، اس کے بعد ہارٹ کی صورت حال بہتر ہونے لگی اور مزید 6ماہ میں ایجکشن فریکشن نارمل ہوگئی اور ڈاکٹرز ہر ہفتے چیک کرتے تھے اور وہ حیران رہ گئے۔ اس کے بعد امریکہ سے واپس آگیا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک وعدہ کرچکا تھا۔ لہذا اس وعدے کو نبھانے کے لئے اور زیادہ سے زیادہ وقت منہاج القرآن کو دینے کے لئے پنجاب یونیورسٹی لیکچرر شپ سے استعفٰی دے دیا اور پارٹ ٹائم لیکچرر شپ اختیار کرلی۔ اس طرح 7,6 سال فل ٹائم اور 7,6 سال پارٹ ٹائم 89ء تک پڑھایا۔ اس دوران Phd کی اور LLM تک پڑھایا۔

جب شادمان میں منہاج القرآن کا آغاز کیا تو 40سامعین ہوتے تھے۔ وسائل بالکل نہ تھے، شام کو خود جا کر دفتر کھولتا، کرسی، میز صاف کرتا، ڈاک کھولتا اس کو پڑھ کر جوابات دیتا۔ رجسٹر پر اندراج کرتا، پندرہ روزہ درسِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ پھر وہاں سے مسجد میں منتقل ہوگئے۔ حاجی سلیم صاحب اور شیخ رفیع صاحب اس زمانے میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے تھے۔

الغرض دفتر کے جملہ امور، کتابوں کو شائع کروانے کے تمام مراحل پروف ریڈنگ، پیسٹنگ، پریس تک لانا اور لے جانا، سٹالز کا اہتمام وغیرہ خود سرانجام دیتا۔ بعد میں حافظ محمد خان صاحب اور دیگر احباب آتے گئے اور ایک حلقہ احباب بن گیا پھر اطلاع ملی کہ شادمان میں ایک کنال کا پلاٹ 8 لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے، خریدنے کا ارادہ کیا، پلاٹ کے مالک نے دو لاکھ ایڈوانس مانگے اور 6لاکھ کیلئے 3ماہ کی مدت دی۔

ہمارے 4ساتھیوں نے 50,50 ہزار روپے دے کر دو لاکھ اکٹھا کیا اور اسے ادا کرنے کے بعد ایگزیکٹو کی میٹنگ بلالی اور ان کے سامنے صورت حال رکھی۔ ایگزیکٹو نے جواب دے دیا کہ یہ ناممکن ہے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اور اس کے بعد مزید دس، پندرہ لاکھ روپے اس کی تعمیر کے لئے حاصل کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے۔ اس لئے ہم یہ Project نہیں لے سکتے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ سے جتنا ہوسکتا ہے کریں باقی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن ہے جہاں انسانوں کی ہمتیں جواب دے جائیں گی وہاں اللہ اپنی خاص مدد و نصرت شامل کرے گا۔ میری اس بات پر انہوں نے ایگزیکٹو سے چندہ اکٹھا کیا اور ایگزیکٹو سے صرف 20ہزار روپے حاصل ہوئے۔

5 لاکھ 80 ہزار روپے بقایا تھا۔ اللہ کی خاص مدد ونصرت سے 3ماہ میں یہ رقم بھی ادا کردی۔ 8لاکھ کا پلاٹ منہاج القرآن کے نام رجسٹری ہوگیا۔ نقشہ نویس تعمیر کے لئے نقشہ بنارہا تھا کہ عیدالاضحٰی کے موقعہ پر جھنگ گیا۔ مجھے حاجی غلام نبی سعید اور مرزا نذیر صاحب کا فون آیا کہ ماڈل ٹاؤن میں LDA بیس (20) کنال کا پلاٹ 55ہزار روپے فی کنال کے حساب سے جگہ فروخت کر رہا ہے فلاں تاریخ کو اخبار میں اس کا اشتہار آیا تھا ہمیں آج اس بارے معلوم ہوا ہے اور کل اس کی آخری تاریخ ہے۔ آدھی رقم یعنی 6لاکھ 80ہزار روپے کا ڈرافت دے کر درخواست قبول ہوگی، پلاٹ اچھا ہے، آپ فوراً آجائیں۔ میں فوری طور پر لاہور آگیا۔ پلاٹ دیکھا، پسند آیا۔ اب اس کو خریدنے کے لئے دوسرا پلاٹ موجود تو تھا۔ مگر اس کا فوراً فروخت ہوکر رقم کا ملنا محال نظر آتا تھا۔ میں نے اس جگہ دو نفل پڑھے اور دعا کی کہ مولا! تیرے دین اور مصطفوی مشن کے مرکز کے لئے جگہ میں نے پسند کی اس کو خریدنے کا بندوبست تو کردے۔

دعا کرنے کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ ہمارے منہاج القرآن کے لئے مختص ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا کیسے؟ میں نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں۔ صبح، حاجی غلام نبی سعید کے گھر اجلاس بلالیا۔ دن کے گیارہ بجے تک کوئی انتظام نہ ہوسکا۔ فیصلہ ہوا کہ ایک آدمی LDA کے دفتر میں چلا جائے یہ نہ ہو کہ دفتر کا وقت ختم ہوجائے وہاں جا کر کہے کہ ہم آدھی رقم کے ساتھ درخواست دے رہے ہیں۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ وہ درخواست فارم پُر کریں۔ قیمت کے سوال پر میں نے کہا کہ آپ ٹھیک دو بجے میرے پاس آجائیں اور رقم لے جائیں۔

انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے بندوبست کریں گے میں نے کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں، ان کا انتظام کرنا میری ذمہ داری ہے۔ ٹھیک دو بجے میں نے انہیں 7 لاکھ روپے ادا کر دیئے، 2:45 پر درخواست داخل دفتر کی گئی اور منظور ہوئی۔ اس درخواست پر یہ پلاٹ جہاں آج سیکرٹریٹ اور مسجد واقع ہے کا پلاٹ حاصل کیا۔ بعد میں شادمان والا پلاٹ بیچ کر بقیہ رقم بھی ادا کردی اور تھوڑی بہت کمی بھی اللہ نے پوری کردی اور 14لاکھ روپے میں یہ پلاٹ خرید لیا گیا، پھر حضور پیر صاحب تشریف لائے تو سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب ہوئی اور سنگِ بنیاد رکھا گیا۔

اس سے فراغت کے بعد یہ اطلاع ملی کی ٹاؤن شپ میں 250 کنال کی زمین ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ اتھارٹی فروخت کر رہی ہے اور 8ہزار روپے فی کنال کے حساب سے حکومت بیچنا چاہتی ہے اور ایڈوانس میں 8لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کو بھی خرید لیتے ہیں اس جگہ یونیورسٹی بنائیں گے اس جگہ گئے، دیکھا، پسند کیا۔ دو نفل ادا کئے اور عرض کیا کہ مولا! منہاج القرآن یونیورسٹی کے لئے یہ جگہ عطا فرما دے۔ رات کو ہمارے منہاج القرآن کے رفقاء میں سے دو افراد دو، دو لاکھ روپے کا چیک لے کر آئے اور اس طرح صبح بھی دو افراد دو، دو لاکھ کا چیک لے کر آئے، اس طرح درخواست کے ساتھ یہ آٹھ لاکھ روپے بھی ادا کردیئے۔

8 لاکھ روپے ادا کرنے اور بعد میں بقیہ ادا کرنے کے بعد یہ زمین بھی حاصل کی۔ گھر میں فاقے چلتے تھے مگر مشن میں ہم لاکھوں کی اراضی خریدتے تھے۔ کبھی دوائی کے پیسے نہیں، کبھی روٹی نہیں، کبھی سالن نہیں، کبھی بچوں کے لئے دودھ نہیں۔ اس صورت حال میں جسم میں توانائی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شب و روز کو یاد کرتے تھے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فاقوں کو یاد کرکے ہم اپنے لئے توانائی کو حاصل کرتے تھے اور مشن کے لئے محنت کرتے تھے۔

مشن کے فروغ کے لئے ملک گیر تنظیمی دورے کرتا اور اس طرح مختلف مراحل میں، مختلف رنگوں میں سے گزرتے گئے اور مشن پھیلتا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ظاہری، دنیاوی مشکلات پیش آئیں۔ گھر میں مختلف معاملات، مالی مسائل، بیماریاں، فاقے، مشکلات پیش آتی رہیں اور اللہ کی خاص مدد و نصرت سے ان سے نکلتے چلے گئے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کبھی بھی ان مسائل اور مشکلات کی وجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی دل ودماغ پر کوئی بوجھ نہیں آیا۔ ملتا تھا تب بھی سکون میں تھے اور نہیں ملتا تھا تب بھی سکون میں تھے، شکر کرتے تھے، مشن کی لگن تھی، جنون تھا، جذبہ تھا اور اس زمانے میں خواب دیکھا کرتے تھے کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ افق عالم پر منہاج القرآن کا جھنڈا لہرائے گا۔ عالم یہ تھا کہ وسائل نہ تھے، تن تنہا مشن کو شروع کیا تھا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

دوست احباب ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ وہ زندگی کا کوئی اور ہی رنگ تھا۔ کئی سال بیت گئے اب زندگی کا دوسرا رنگ ہے، اس وقت لوگ میری ذاتی زندگی کے متعلق نہ جانتے تھے کہ اندر کیا ہے؟ اب جوں جوں مشن بلند ہوتا گیا۔ تو ہم نے ساری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کا فیض کھایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ (نصرت باالرعب)

’’اللہ نے میری مدد رعب و دبدبہ سے کی ہے‘‘ جب فاقے تھے اس وقت بھی اللہ نے مصطفوی انقلاب کے لئے اس مشن کو ایسا رعب و دبدبہ دے رکھا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ انہیں کس چیز کی کمی ہے، ہر چیز اللہ نے انہیں دے رکھی ہے، لاکھوں میں کھیلتے ہیں، یہ ظاہری رعب و دبدبہ تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اتفاق فیملی نے انہیں ہر چیز دے رکھی ہے۔ مگر عالم یہ تھا کہ اگر وہ بچوں کے لئے کوئی تحفہ تحائف لاتے اس کا بدلہ چکانے کے لئے گھر کے زیور تک بیچنے پڑتے تو بیچ دیتے مگر بدلہ اتار دیتے تھے۔ وہ لوگ وسائل والے تھے، ہمارے پاس وسائل نہ تھے، عیدوں اور شادیوں کے موقعہ پر دوستی کو نبھانے کے لئے، ان کے بدلے اتارنے کے لئے زیورات کو پالش کرکے انہیں دے آتے تاکہ ہمارے اوپر احسان نہ رہے، بدلہ چکا دیا جائے، ایک مرتبہ میاں شریف صاحب نے کہا کہ اتفاق مسجد کے قریب ایک 8کنال کا پلاٹ ہے آپ میرے بھائی ہیں اجازت دیں تو ہم اپنی کوٹھیوں کے ساتھ آپ کی کوٹھی بھی تعمیر کردیں۔ آپ اللہ کے دین کے لئے وقف ہیں مگر آپ کی اولاد کے لئے ہی یہ کام کردیں۔ میں نے کہا کہ میاں صاحب مرتے دم تک یہ کام نہیں کروں گا۔ اب وہ سوال جو مخالفین کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ہے کہ TV پر خطاب اور شریف فیملی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تو اس حوالے سے یہ بتاتا ہوں کہ اسی دوران ڈاکٹر اسرار احمد نے بعض مذہبی مسائل پر کچھ فتوے دیئے کہ یہ ناجائز اور بدعت ہیں۔ ہاکی کے معاملے میں بھی انہوں نے کچھ بحثیں کیں۔ عورتوں کے معاملے میں بعض مسائل Discuss کئے۔ پہلے تو وہ شوریٰ کے ممبر تھے مگر بعد میں وہاں سے نکل آئے اور گورنمنٹ پر تنقید شروع کی۔ بدقسمتی سے انہوں نے بعض ایسے متنازعہ مسائل لئے کہ اس کے خلاف اختلافی آراء آنے لگیں۔ اس پر ضیاء حکومت نے ان کا الہدیٰ پروگرام ختم کر دیا۔ اس سے پہلے ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر صاحب کا ایک پروگرام تو چل رہا تھا جس سے ہزاروں کروڑوں عوام کو فائدہ بھی پہنچ رہا تھا۔ لوگ قرآنی تعلیمات سے آشنا بھی ہورہے تھے۔ اب اس وقت کی حکومت جیسی بھی غلط ملط تھی مگر اس نے اسلام کا لبادہ تو اوڑھ رکھا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ ٹیلی ویژن پر اسلامی تعلیمات اور درس قرآن کا پروگرام جاری رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی Communication ان کی گفتگو اور درس ظاہر ہے کہ اچھے معیار کا تھا۔ اب حکومت کا خیال تھا کہ اس کی جگہ مزید بہتر چیز لوگوں تک پہنچائی جائے تب ہی وہ اسے قبول کریں گے۔ اس سلسلے میں ضیاء الحق یا کسی دوسرے نے مجھ پر نوازشات نہیں کیں اور یہ بھی اتفاق برادرز سے متعارف ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ میرا تو اتفاق برادرز اور میاں فیملی سے ابھی تعارف نہیں ہوا تھا کہ جب فہم القرآن ٹیلی ویژن پر آنے لگا تھا۔

بیچارے نواز شریف تو اس وقت وزیراعلیٰ ہی نہیں تھے وہ تو اس وقت صوبائی وزیر خزانہ تھے۔ اس کے علاوہ جو بھی کچھ کہتا ہے وہ جھوٹ اور کذب ہے۔ میں تو پوری داستان سنا رہا ہوں اس میں میں ذرا سی بات بھی مخفی نہیں رکھ رہا۔ بہر کیف الہدیٰ کے بعد حکومت کے لئے ایک مسئلہ بنا۔ مجھے بعض اسمبلی ممبران اور دوسرے لوگوں نے بتایا کہ بہت سارے لوگ ضیاء الحق صاحب اور راجہ ظفرالحق سے ملے اور انہیں کہا کہ آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کے درس قرآن کا سلسلہ ٹیلی ویژن پر شروع کریں۔ کیونکہ آپ کو ان کے Caliber کا اندازہ نہیں ہے۔ اس پر جنرل مجیب الرحمن سیکرٹری اطلاعات مجھے ذاتی طور پر آ کر ملے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم پاکستان کے ممتاز علماء کے درس قرآن ٹی وی کے لئے آزمائشی بنیاد پر شروع کررہے ہیں۔ آپ کی پورے ملک میں بڑی شہرت اور نام ہے اور قرآنی تعلیمات پر آپ اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں لہذا آپ بھی اپنا پروگرام ریکارڈ کروا لیں۔

چنانچہ ٹیلی ویژن والوں نے فہم القرآن کے نام پر میرے چار پروگرام اکٹھے ریکارڈ کئے۔ چاروں صوبوں کے ممتاز علماء کے درس قرآن بھی ریکارڈ کئے گئے تاکہ موازنہ کیا جاسکے۔ یہ سارے پروگرام اسلام آباد گئے جو کہ کمیٹی نے سنے۔ دوسرے علماء میں سے کسی کا بھی پروگرام انہیں Suit نہیں آیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے میرے پروگرام کو میرٹ کی بنیاد پر اوکے کیا۔ پھر مجھ سے دوبارہ درخواست کی جس کے بعد ٹیلی ویژن پر فہم القرآن شروع کیا گیا۔ اس میں کسی شخصیت کسی گھرانے اور کسی سیاسی جماعت کا کوئی دخل نہیں اور جو ایسا دعویٰ یا الزام لگائے وہ جھوٹ بولتا ہے۔

جب فہم القرآن آنا شروع ہوا تو میڈیا کے ذریعے میری آواز ملک کے گوشے گوشے تک پہنچی جس سے میرا حلقہ مزید بڑھا۔ اس سے پہلے میرا ادارہ منہاج القرآن قائم ہوچکا تھا۔ یہ وہی دور ہے کہ ابھی اتفاق برادرز سے میرا تعلق اور واسطہ بھی نہیں ہوا تھا اور میں نے اتفاق مسجد میں جمعہ شروع نہیں کیا تھا کہ جب مجھے ہفتہ وحدت کی تقریباًت میں شرکت کے لئے ایرانی انقلاب کے بعد حکومت ایران سے دعوت آئی۔ اس سال پورے پاکستان سے تنہا مجھے ہی دعوت آئی۔ اس دوران میں نے ایران کا دورہ بھی کیا بعد ازاں ناروے میں بھی میرے خطابات ہوئے۔ اوسلو میں بھی ہوئے جس کے نتیجے میں بائیس سے زیادہ افراد مسلمان ہوئے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے میرے کام کی عالمی سطح پر دھوم مچی۔

اس اثناء میں جب مجھے ایران کی دعوت آئی ہوئی تھی اور مجھے وہاں جانا تھا اس وقت میں تو اتفاق برادرز کو نہیں جانتا تھا اس دوران اتفاق برادرز نے اتفاق کالونی ایچ بلاک میں ایک مسجد بنائی تھی۔ مسجد بنانے کے بعد لاہور کے چند علماء سے باری باری جمعہ کا خطبہ دلواتے تھے مگر میں نے تو ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن دیکھا ہوا بھی نہیں تھا ان کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا عالم خطبہ دے جس سے زیادہ لوگ آئیں اور یہ ایک اچھا مرکز بن جائے۔ اس سلسلے میں کسی نے ان کو تجویز پیش کی کہ قادری صاحب کا شادمان میں درس قرآن ہوتا ہے آپ فیملی کے لوگ جاکر انہیں سنیں۔ اس پر میاں شریف صاحب اور ان کی برادری کے دوسرے لوگوں نے چپکے سے آ کر میرے کچھ درس قرآن سنے اور چلے گئے۔ جس طرح ہزاروں لوگ آتے تھے اور سن کر چلے جاتے تھے۔ اس طرح اتفاق برادرز بھی چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ دوسرے لوگوں کی طرح میاں شریف صاحب بھی میرے ساتھ مصافحہ کر رہے تھے تو قریب کھڑے ایک شخص نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میاں شریف صاحب ہیں اتفاق برادرز کے مالک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے میں نے تھوڑا سا سن رکھا تھا کہ اتفاق برادرز کے کوئی صاحب ہیں وہ ہمارے پیر صاحب شیخ طریقت کے مرید ہیں۔ وہ ان کے بڑے بھائی تھے چنانچہ میں نے میاں شریف سے پوچھا کہ آپ کے کوئی بھائی ایسے بھی ہیں جو ہمارے بزرگ پیر السید طاہر علاؤالدین صاحب قبلہ کے مرید ہیں۔ میاں شریف نے کہا کہ ان کے بڑے بھائی حضور پیر صاحب کے مرید ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کے بعد اتفاق برادرز کے گھر میں باقاعدہ میٹنگ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ قادری صاحب سے کہا جائے کہ وہ ہماری اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کریں۔ اتنی ساری Development کے بعد ان سے میرے تعارف کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی اس سے پہلے منہاج القرآن بن چکا تھا اور ہمارے پورے کام کا پاکستان بھر میں ایک جال سا بچھ چکا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ میں نے اپنی غیر معمولی علمی اور مذہبی مصروفیات کے باعث میاں شریف کو انکار کر دیا۔ مجھے جب یہ بھی پتہ چلا کہ یہ صنعتکار لوگ ہیں توان کے ذہن میں ہوگا کہ ہم مولانا قادری کو بطور خطیب ملازم رکھ لیں گے، تنخواہ کا خیال بھی ان کے ذہن میں ہوگا اور خدا جانے ان کا دوسرا برتاؤ میرے ساتھ کیسا ہوگا۔ ان خدشات کے پیش نظر میں نے انہیں انکار کر دیا مگر ان کا اصرار جاری رہا۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو ایک آدمیوں کے ذریعے بھی کہلوایا۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ میں اپنے منہاج القرآن کے ساتھیوں اور تنظیم کے ممبران سے صلاح مشورے کے بعد آپ کو جواب دوں گا۔ چنانچہ وہ ہمارے ساتھیوں کے اجلاس میں آئے اور اپنا مسئلہ سامنے رکھا۔ بالآخر کافی سوچ بچار کے بعد ادارے کی عاملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ خطبہ جمعہ اصولی طور پر شروع کر دینا چاہئے۔ اس طرح ہر ہفتے خطبہ جمعہ کے حوالے سے جو اجتماع ہوگا وہ فکر کی تشہیر تبلیغ اور اشاعت کے لئے بڑا مرکزی کردار ادا کرے گا۔ اس طرح منہاج القرآن کا مشن بھی رفتہ رفتہ لوگوں تک پہنچنا شروع ہوجائے گا۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ خطبہ جمعہ اتفاق مسجد میں کرنا چاہئے یا کہیں اور کرنا چاہئے تیسری بات یہ کہ میاں شریف کو یہ بتا دیا جائے کہ اگر میں نے خطبہ جمعہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر جب تک میں خطبہ دوں گا زندگی میں کوئی تنخواہ یا معاوضہ وغیرہ نہیں لوں گا۔ یہ سب کچھ میں فی سبیل اللہ کروں گا چنانچہ اپنے طور پر فیصلے کرکے ہم نے میاں شریف صاحب کو اطلاع کر دی کہ ہم آپ کی مسجد وغیرہ کا visit کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک شام کا ڈنر رکھ لیا اور کہا کہ آپ مسجد بھی دیکھ لیں اور مل بیٹھ کر اس سلسلے میں بات چیت بھی کر لیں گے۔ چنانچہ مقررہ روز میں اور میرے پندرہ بیس ساتھی میاں صاحب کے ہاں ڈنر میں شریک ہوئے۔ مسجد کی ساری جگہ دیکھی۔ ڈنر میں نواز صاحب، شہباز صاحب سب لوگ موجود تھے۔ بہر حال ہم نے اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی اور شرط یہ عائد کردی کہ اس کام کی کوئی تنخواہ نہیں لیں گے اور آپ اس کا کبھی ذکر بھی نہیں کریں گے۔ تاہم اگر آپ اتفاق مسجد کے ساتھ کوئی درسگاہ بنانا چاہیں تو ضرور بنائیں میں وہاں بھی فی سبیل اللہ خدمات انجام دوں گا۔

چنانچہ ساری باتیں طے کرکے اتفاق مسجد میں میرا جمعہ کا خطبہ شروع ہوگیا۔ خطبہ جمعہ کی بنیاد پر ہی ان کے ساتھ تعلقات رہے۔ اس وقت نواز شریف صاحب وزیر خزانہ تھے جبکہ ہمارا منہاج القرآن کا ابتدائی دور تھا خطبہ جمعہ میرا اور شریف فیملی کے باہمی ذاتی تعلق کی بنیاد بنا۔ الحمدللہ خطبہ جمعہ چھوڑنے تک ہمارے ذاتی اور گھریلو تعلقات بڑے خوشگوار رہے ہیں۔ نواز شریف یا شہباز شریف سے میرا تعلق بھائیوں جیسا رہا۔ میاں شریف اور ان کی اہلیہ کو میں ہمیشہ اپنے والدین کی نظر سے دیکھتا رہا۔ وہ بے پناہ شفقت عقیدت اور ایسی محبت کا مظاہرہ کرتے رہے جیسا کہ لوگ مشائخ اور بزرگوں سے بھی نہیں کرتے۔ یہ بھی بتادوں کہ یہ تعلق دنیاوی مفادات سے بے نیاز رہا۔ جتنا عرصہ بھی تعلق رہا ہم نے منہاج القرآن کے سلسلے میں ان سے کوئی مدد نہیں لی اور نہ ہی انہوں نے اپنی حکومتی اور سیاسی سرگرمیوں میں مجھ سے کوئی مدد لی۔

اگر اس سلسلے میں کوئی شخص الزام لگائے گا تو وہ جھوٹ بولتا ہے میں نواز شریف کا گواہ ہوں اور وہ میرے گواہ ہیں۔ کوئی بھی شخص ان سے پوچھ لے کہ جس وقت آپ قادری صاحب سے ملے کیا اس وقت سے لے کر آج کے دن تک آپ کا ایک روپیہ بھی منہاج القرآن کے اوپر لگایا انہوں نے آپ سے لے لیا۔ وہ خود گواہی دیں گے کہ قادری صاحب نے ہم سے ایک پائی معاونت بھی نہیں لی۔ اسی طرح جب الیکشن ہوئے تو میں نے روئے زمین کے کسی ایک فرد کو بھی نہیں کہا کہ وہ نواز شریف کو ووٹ دے۔ ہمارا تعلق تو محض خطبہ جمعہ کے حوالے سے دینی نوعیت اور باہم پیار محبت کا تھا۔ تاہم مخلوق خدا میں اگر کسی کی ملازمت ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے تو میں ان کے سینکڑوں ہزاروں کام نواز شریف صاحب سے کہہ دیتا تھا بعض کے ہوجاتے تھے بعض کے نہیں ہوتے تھے مگر اپنی ذات کو میں نے اس سلسلے میں مبرا رکھا۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ آگے جتنی بھی Developments ہوئیں مثلاً میرا ٹی وی پر آنا وغیرہ تو کسی میں بھی نواز شریف صاحب کا کوئی دخل نہیں اگر آپ ان سے پوچھیں اور وہ سچائی پر مبنی جواب دیں تو میں سیاسی اختلاف کے باوجود امید کرتا ہوں وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ہماری ترقی میں ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

میں نے ادارے کے ساتھیوں سے کہا کہ آپ اپنے مکان بیچ کر مرکز کے قریب جگہ لے لیں تاکہ ہم ادارہ کو صحیح طرح چلاسکیں۔ مگر کسی ساتھی نے یہ قدم نہ اٹھایا۔ کسی کو گھر سے اجازت نہ ملی، پھر میں نے خود سمن آباد کی کوٹھی 2لاکھ روپے نقصان پر 10لاکھ میں بیچ کر اپنے اس گھر کا پلاٹ ساڑھے چار لاکھ روپے میں خریدا اور اس کی تعمیر کی جب دوسری منزل کو تعمیر کرنا چاہا تو پیسے ختم ہوگئے اور وہ بھی جھنگ کی جائیداد بیچ کر اور کچھ قرض لے کر تعمیر کی تھی اور خدا کا شکر ہے کہ کمیٹیاں ڈال کر وہ قرض ادا کر دیا۔ میرے پاس ایک سیمنٹ کی ایجنسی تھی اور برانڈرتھ روڈ پر کچھ کاروبار تھا۔ مکان کو مکمل کرنے کے لئے میں نے وہ سیمنٹ کی ایجنسی بیچ دی۔ اس ایجنسی کو میں نے 2000روپے مینجمنٹ فیس پر ایک رفیق ادارہ کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ پہلے مہینے وہ حساب وکتاب کا رجسٹر اٹھا لایا کہ آمدن و اخراجات چیک کرلیں۔ میں نے کہا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ زندگی کا ایک لمحہ بھی دنیا کو نہیں دوں گا۔ اس لئے میں اس حساب وکتاب کو چیک نہیں کروں گا۔ اب میرا وقت، میرا نہیں بلکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت ہے، ایک سانس جتنا لمحہ بھی میرا نہیں، مجھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امانت دی ہے۔ اللہ نے امانت دی ہے، میں اسے اپنے روزگار پر خرچ نہیں کروں گا۔ میری اولاد کا وقت آئے وہ اپنے بزنس پر بھی توجہ دے اور مشن بھی چلائے۔ میں Sleeping Partner تو ہوسکتا ہوں مگر بزنس کو خود وقت نہیں دوں گا۔

17,16 سال گزر گئے میں ایک دفعہ بھی اپنی دوکان پر نہ گیا، صرف افتتاح کے وقت دعا کے لئے گیا تھا۔ دوستوں کو کہا کہ جو آئے قبول ہے، مگر حساب کتاب چیک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس چیک کرنے پر جو وقت لگے گا وہ میرے محبوب سے کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی ہوگا۔ سیمنٹ ایجنسی کے مینجر کے دل میں حساب کتاب نہ چیک کرنے کی وجہ سے فتور آگیا اور اس نے منافع آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کر دیا اور ایک مہینہ ایسا آیا کہ کچھ منافع نہ دیا۔ کہنے لگا کہ نقصان ہوگیا ہے۔ میں اس کی نیت جان گیا۔ اس کے بعد میں نے اس ایجنسی کو بیچ دیا اور اس رقم سے مکان مکمل کیا چونکہ میں صرف افتتاح کے وقت اس ایجنسی پر گیا تھا بعد میں کبھی نہ گیا۔ ایک دن بچوں کی فرمائش پر انہیں دکھانے لے گیا تو میں وہ ایجنسی تلاش ہی نہ کرسکا کیونکہ رات کا وقت تھا اور آٹھ سال پہلے افتتاح کے وقت گیا تھا۔ اس کے بعد نہ گیا۔

اس کے بعد صرف برانڈرتھ روڈ کاروبار رہ گیا اور یونہی زندگی گزرتی چلی گئی اور 17سال تک ان کے ساتھ کاروبار رہا اور وہ منافع خود ہی گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ 3/2 سال قبل ان کا کاروبار مشکلات کا شکار ہوگیا۔ اب اس دکان سے بھی پیسے نہیں آتے۔ اس کاروبار کی طرف سے منافع نہ ملنے کی وجہ سے موجودہ سالوں میں یہ صورت حال ہے کہ میں اگر یورپ کے دورے پر ہوں تو گھر میں خرچہ نہیں ہے بعض دفعہ ملازموں کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں، بعض اوقات گھر میں رہنے والے دوسرے افراد (بشارت، خالد وغیرہ) کے مقروض ہوجاتے ہیں اور اگلے ماہ وہ قرض ادا کر دیتے ہیں۔ گویا یہ قرض کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، کوئی بچت نہیں ہوتی کہ بینکوں میں رکھوائے جائیں۔

دکان سے جب پیسے آنا بند ہوئے، تین، چار ماہ بعد تھوڑی رقم بھیجتے میں نے وہ رقم لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ کافی بیمار ہوگئے قریب المرگ ہوگئے۔ میں عیادت کے لئے گیا اور کہا کہ میں نے جو Invest کیا تھا، نہ جانے آپ پر کیا حالات گزرے ہیں اس لئے میں آپ سے ان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ آپ کو معاف کرتا ہوں چونکہ آپ کا میرا تعلق 17سال رہا ہے اب آپ کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔

حاجی سلیم صاحب اور راحت حبیب صاحب کو یہ قصہ معلوم ہوا انہوں نے حاجی اسلم قادری صاحب کو بتایا وہ دو لاکھ روپے لے کر گھر آئے اور ناراض ہوئے کہ آپ نے وہ رقم انہیں معاف کیوں کی ہے؟ ہم وہ حاصل کریں گے؟ میں نے منع کر دیا کہ معاف کر دیئے ہیں۔ وہ رقم بھی اللہ کی دی ہوئی تھی۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اسلم صاحب نے 2 لاکھ روپے دینے کی کوشش کی مگر میں نے انکار کر دیا کہ اللہ دینے والا ہے۔ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ وہ کوئی سبب بنا دیتا ہے۔ کسی زمانے میں UAE ابوظہبی ٹیلی ویژن پر میں نے تقریباً 70 لیکچرز دیئے تھے۔ ان کی کیسٹس بنیں اور وہ کیسٹس منہاج القرآن کے لئے وقف ہوگئیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کی ریکارڈنگ کے پیسے ملتے ہیں جس طرح فہم القرآن کی ریکارڈنگ کے 500 روپے ملا کرتے تھے۔ ایک دن ہمارے رفیق ادارہ سعید شاہ کا فون آیا کہ آپ کے 70خطابات کا بل اتنے ہزار ڈالر آیا ہوا ہے ان لیکچرز کا معاوضہ ہے۔ چنانچہ وہ ملے اور سبب بن گیا۔ تین دوستوں نے وہ آپس میں بانٹ لئے اور اپنے کاروبار میں شراکتی بنالیا۔ اس طرح وہاں سے آنے والے نفع سے کام چلتا رہتا ہے۔

اموال پر زکوٰۃ لگتی اور زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے کیش کی ضرورت ہوتی۔ لیکن چونکہ کیش ہوتا نہ تھا۔ اس لئے ایڈوانس رقم منگوا کر یا ادھار اٹھا کر زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔

ایک مرتبہ نواز شریف نے 8کنال کے پلاٹ کی آفر کی میں نے انہیں کہا کہ آپ کو جرات کیسے ہوئی میرے ساتھ اس طرح کی بات کرنے کی اس پر میاں شریف صاحب بولے کہ نواز، ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند اگر کئی کئی سوکنال کی جگہ مشن کے لئے ان کے کہنے پر خرید کردے سکتے ہیں تو ان کے لئے اپنا مکان یا کوٹھی کے لئے جگہ لینا کونسا مشکل ہے۔ مگر انہوں نے اللہ سے ایک وعدہ کیا ہوا ہے ایک طرز زندگی پسند کیا ہے، اپنی ذات کے لئے راستے بند کئے ہوئے ہیں اور اللہ کے دین کے لئے راستے کھلوائے جارہے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطھرہ پر چلتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس پر نواز شریف نے اپنی بات پر معافی مانگی۔ اس پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو 72لاکھ روپے تھی جو وہ مجھے 72ہزار میں دینا چاہ رہا تھا۔

جب میاں شریف نے بابا فرید شوگر مل لگائی تو مجھے آفر کی کہ گنے کی راب میں سے ایک کیمیکل نکلتا ہے اگر اجازت دیں تو آپ کے بچوں کے نام پر اس کیمیکل فیکٹری کو لگا دیں، میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے منتیں کیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اجازت دے دیں مگر میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میاں صاحب مرجاؤں گا مگر جو سودا اللہ سے کیا ہے وہ سودا کسی عام انسان سے نہیں کروں گا۔

جس طرح اس زمانے میں زندگی گزاری الحمدللہ اسی طرح کی زندگی اب بھی گزر رہی ہے۔ مگر جیسے جیسے مشن کا رعب و دبدبہ بڑھتا چلا جاتا ہے اسی طرح اللہ مشن چلانے والے کے رعب و دبدبہ کو بھی اونچا کرتا چلا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے ڈر میں رہیں۔ ایک رعب و دبدبہ قائم رہے اور یہ سب ’’نصرت باالرعب‘‘ کا فیض ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کا صدقہ ہے۔ اس طرح کی امانت اور دیانت سے زندگی بسر کریں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح برکتوں کے چشمے کھل جاتے ہیں۔ روز اول میں نے ایک عہد کیا تھا کہ مشن اور منہاج القرآن کے پیسوں میں سے ایک چائے کا کپ اور ایک لقمہ تک نہ کھاؤں گا۔ 21 سال گزر گئے، میرے جسم کا خون اور میری اولاد کے خون کا ایک قطرہ بھی مشن منہاج القرآن کے پیسے سے نہیں بنا۔ اس کا بدلہ کیا ملتا ہے؟ یا آدمی خود کو پالے یا مشن کو پالے دونوں بیک وقت انسان نہیں پال سکتا۔ ہم نے اپنے آپ کو دوسرے روایتی مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی طرح نہ پالا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو سربلند کیا اور حضور کے مشن کی خدمت کی، اپنی جیب میں ڈالنا بند کردیں تو حضور کے مشن کے لئے کروڑوں جیبیں کھل جاتی ہیں۔

1984ء میں نواز شریف کے دوست شیخ سعید نے بند کمرے میں مجھے 4 لاکھ روپے ہدیہ، نذرانہ کی پیشکش کی مگر میں نے انکار کر دیا۔ پھر اس نے کہا کہ مشن کے لئے لے جائیں میں نے کہا کہ مشن کے لئے دینا ہے تو منہاج القرآن کے نام چیک یا ڈرافٹ بنا کر بھیج دو، نقد ساتھ نہیں لے جاؤں گا، پھر انہی پیسوں سے منہاج القرآن کا پریس لگا اور اس نئے پریس کے آنے سے پہلے وہی چلتا رہا ہے۔

انسان جب اپنے لئے لینے کے راستے بند کرتا ہے اور کسی سے نہیں لیتا اور لوگ دینا چاہتے ہیں کہ قائد اشارہ کرے، مگر اپنی ذات کیلئے چونکہ نہیں لیتے لیکن جب مشن کے لئے مانگتے ہیں تو ورکرز بڑی سے بڑی رقم دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بے نظیر بھٹو نے مجھے کہا کہ قادری صاحب یہ سب وسائل کہاں سے پیدا ہوئے۔ اس کے ساتھ ناہید خان بیٹھی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو تیری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ خواجہ شمس الدین تبریز کی طرح کہ

کہ ایں آں سر است کہ تو نہ دانی

یہ وہ راز ہے کہ تو جان ہی نہیں سکتی اس لئے کہ تو خود لے لیتی ہے، لوگ تیری جماعت کو نہیں دیتے، ہم چونکہ خود نہیں لیتے، لوگ جانیں بھی جماعت پر قربان کر دیتے ہیں، یہ مصطفوی انقلاب کا طریقہ ہے۔ اپنے لئے کچھ نہیں لیتا لیکن پھر بھی اولاد کو کسی چیز کی کمی نہیں۔ اپنی اولاد کو کہتا ہوں کہ کسی سے کم نہیں ہو۔ دینی نعمت میں بھی اور دنیا کی عزت میں اور انہیں یہی درس دیتا ہوں کہ اگر مشن کے لئے جان بھی قربان کردو تب بھی اس کی نعمتوں کا شکر بجا نہ لاسکو، کیا یہ نعمت کم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہیں۔ مشن پھل پھول رہا ہے، جاگیردار، سرمایہ دار، دہشت گرد دنیا مخالف ہے، مسائل کے انبار ہیں مگر مشن تمام رکاوٹوں کو توڑتا ہوا آئے دن آگے بڑھتا جا رہا ہے اور دن بدن منزل کے قریب ہو رہا ہے۔

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اڑانے کے لئے

ان شاء اللہ مسائل حل ہونگے، رکاوٹیں دور ہونگیں اور مصطفوی انقلاب کا مشن کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔

تبصرہ