اللہ دین کی خدمت کیلیے خاص بندوں کو منتخب کرتا ہے

مسز فریدہ سجاد، انچارج ویمن سیکشن ایف ایم آر آئی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک ایسی ہمہ جہت اور عدیم النظیر شخصیت ہیں، جن کے بارے میں لکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لیے کہ ایسی ہستی کے بارے میں لکھنے والا جو لکھتا ہے اس کا تعلق اس کے محدود علم اور فہم و فراست کی گہرائی و گیرائی سے ہوتا ہے اور وہ صرف ان گوشوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کے سامنے اور حیطہ علم میں ہوتے ہیں، جب کہ زندگی کے بہت سے پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں جو لکھاری کے دائرہ بصارت و بصیرت سے ماوراء ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر سال قائد ڈے کے موقع پر میں جب شیخ الاسلام کے اجتہادی کام کی طرف نظر دوڑاتی ہوں تو اس میں اتنی متنوع اور متعدد جہات کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ ہمارے فہم و ادراک کی حدود سے ماوراء ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنی محدود اور تنگ نظر بساط کے مطابق کسی ایک گوشہ پر قلم اٹھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ زیرِ نظر مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

قرآن مجید کے5 ہزار سے زائد موضوعات پر مشتمل اور 8 جلدوں پر محیط شیخ الاسلام کی فقیدالمثال تالیف اور اکیسویں صدی کا گوہر نایاب قرآنی انسائیکلو پیڈیا جب منظرِ عام پر آیا تو محررہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اتنا عظیم اعزاز شیخ الاسلام کے حصے میں کیسے آیا۔ جس کا جواب مجھے قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ سے ملا:

اَللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآء.

(الشوریٰ، 42: 13)

اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے۔

بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور اس کی عطاء ہے کہ اس نے اپنے چنیدہ اہل علم بندوں میں شیخ الاسلام کو اس عظیم الشان کام کے لیے منتخب فرمایا ہے، جس کی تکمیل کے لیے قدرت نے نہ جانے آپ کو کن کن مراحل سے گزارا کہ آپ دنیا کے افق پر بطور مجدد، مصلح اور Multi dimensional personality کے طور پر ابھرے۔ آپ نے عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف خدمت و اشاعت دین کے عظیم کام کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے، بلکہ اپنی کثیر تصانیف و خطابات اور بین الاقوامی اسفارکے ذریعے عالمی انسانی برادری میں امن و سکون اور باہمی برداشت و رواداری کو بھی فروغ دیا ہے۔ کیونکہ کچھ صدیوں سے فرقہ واریت کا زہر اُمت مسلمہ کی رگوں میں اس طرح سرایت کرتا جا رہا تھا کہ ہر جگہ تفرقہ بازی میں نام نہاد مجتہدین اور مفکرین کے حلقات نظر آ رہے تھے۔ ایسے حالات میں شیخ الاسلام نے عرب و عجم اور مشرق و مغرب میں بسنے والی پوری دنیا کو اسلام کا پُر امن، متوازن اور معتدل چہرہ متعارف کروایا۔

آپ کی کثیر الجہات شخصیت کی طرح آپ کی علمی و تحقیقی کاوشوں میں بھی کئی dimensions موجود ہیں، آپ کی تعلیمی زندگی ہمیں قدیم اور جدید کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔ آپ کے اکتساب علم کی ابتدا 1955ء میں سیکرڈ ہارڈ سکول جھنگ صدر سے ہوئی۔ جہاں سے آپ نے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حاصل کی۔ 1966ء میں اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر سے فرسٹ ڈویژن میں ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کا امتحان پاس کیا۔ 1968ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج فیصل آباد سے فرسٹ ڈویژن میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1974ء پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں قانون کی ڈگری (LLB) حاصل کی اور 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامی فلسفہ عقوبات کے موضوع پر اسلامی قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ کے والد گرامی نے بچپن ہی سے آپ کی دینی تعلیم کا آغاز کر دیا، جس میں عربی، صرف، نحو، عربی ادب، فقہ، اصول فقہ، فلسفہ، معانی اور علوم دین کے تمام علوم درسیہ شامل تھے۔ اس دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز 1963ء میں حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں کے شاگرد اور خلیفہ مولانا ضیاء الدین مدنی کی زیرنگرانی مدینہ منورہ میں ہوا۔ 1963ء میں ہی سید علوی المالکی سے آپ نے حدیث کا سماع کیا۔ 1963ء تا 1969ء میں جامعہ قطبیہ جھنگ سے علوم شریعہ کا متداول کورس درس نظامی کیا۔ 1970ء میں ڈاکٹر فریدالدین قادری کی زیرنگرانی جھنگ میں دورہ حدیث مکمل کیا۔ 1979ء میںسید احمد سعید کاظمی (ملتان)سے اجازت روایت حدیث کی سند حاصل کی۔ 1991ء میں محمد بن علوی المالکی (مکہ مکرمہ)سے اجازت روایت حدیث اور اجازت العلمیہ کی سند حاصل کی۔ 2006ء میں امام یوسف بن اسماعیل نبہانی (لبنان) کے تلمیذ شیخ حسین بن احمد عسیران سے روایت حدیث کی اجازات حاصل کیں۔

علاوہ ازیں آپ کے اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جن سے آپ نے وقتاً فوقتاً اکتسابِ علم کیا، ان میں شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی، مدینہ طیبہ میں علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد مولانا بدر عالم میرٹھی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا عبد الشکور مہاجر المدنی، سید ابو البرکات (حزب الاحناف)، محدث اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد قادری اور ان کے شاگرد مولانا عبد الرشید رضوی، شام میں امام محمد بن جعفر الکتانی کے صاحبزادے سید محمد فاتح الکتانی، ہندوستان میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر المکی کے خلیفہ اور شاگرد سید عبد المعبود الجیلانی، شارح بخاری حضرت مولانا غلام رسول رضوی، حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی شامل ہیں۔ آپ نے مشرق اور مغرب کے ان اساتذہ کرام سے تمام علوم کو جمع کر کے ان سے استنباط و استدلال کیا اور تشنگانِ علوم و معارف کے لیے تحقیق و تفکر پر مبنی بیش بہا ذخائرِ علمی مہیا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو عرب و عجم میں مسلمہ علمی سنداور اتھارٹی مانا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام کو بچپن سے ہی علم حاصل کرنے کا جنون تھا۔ دورانِ تعلیم اپنے ماہانہ خرچ کا زیادہ حصہ کتب کی خریداری پر صرف کرتے۔ بس کی بجائے سائیکل پر سفر کر کے کرایہ کے پیسے بچاتے اور جہاں تک ممکن ہوتا ضرورت مند طلباء کی مدد کرتے۔ حصول علم اور مطالعہ کتب کے لیے دن رات وقف کیے رکھتے اور نئے سے نئے افکار و علوم سے شناسائی کے لیے ہمہ تن گوش رہتے، یہی وہ محنت شاقہ تھی جس نے آپ کو علوم و معارف کے بحر بے کراں عطاء فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آپ کو unmatched وسعت علمی عطاء ہوئی۔ جس کے ساتھ آپ نے بیسیوں موضوعات پر مشتمل 550 سے زائدکتب لکھیں اور 6000 سے زائد عنوانات پر ہزارہا خطابات کیے۔ آپ نے جس موضوع پر بھی لب کشائی کی یا قلم اُٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو کمال عطاء کیا۔

اسی کمال کا منہ بولتا ثبوت اکیسویں صدی کا گوہرِ نایاب قرآنی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ یہ رواں صدی کا ایسا کام ہے جو اپنے علمی دقائق اور رموز حقائق کی رو سے حیرت انگیز حد تک لاجواب، بے مثال اور علمی احتیاط و دیانت اور تبحر و تدبر کی ایک نادر مثال ہے۔

قرآنی انسائیکلو پیڈیا اکیسویں صدی کا گوہرِ نایاب اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ عصرِ حاضر کے تمام تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ مثلاً آج جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب ہر شخص تحقیقات و ایجادات میں آسانی کے ساتھ speed and accuracy حاصل کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اور سو فیصد درست، To the point معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن حکیم سے راہنمائی کے خواہاں کے لیے اکیسویں صدی کے گوہرِ نایاب نے مذکورہ جدید تقاضوں کے مطابق قرآن سے ہر موضوع پرکم وقت میں بالکل درست اور فوری رہنمائی کے مشکل امر کو آسان کر دیا ہے۔ اس کی فہرست کی مدد سے ہر شخص فوری طور پر اپنے متعلقہ موضوع تک رسائی کر سکتا ہے۔

یوں تو اس قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں 5 ہزار سے زائد موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اگر اسے بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ 20 ہزار سے زائد موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا میں عقائد، اعمال، اخلاق، عبادات، معاملات، حقوق و واجبات، معاشرت، تہذیب و ثقافت، سیاست و حکومت، عدالت، تجارت، انسانی زندگی کے نجی اور اجتماعی مسائل، قومی و بین الاقوامی مسائل، الغرض! ہر وہ موضوع جو آپ کے ذہن میں سوال بن کر اُبھرے گا، آپ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی 4 سو صفحات پر مشتمل فہرست میں اس موضوع کو پا لیں گے اور پھر متعلقہ صفحہ پر اس موضوع پر وہ تمام آیات قرآنیہ یکجا موجود ہوں گی، جو پورے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر متفرق اور منتشر صورت میں موجود ہیں۔

شیخ الاسلام نے قرآن مجیدکے علوم و معارف پر اپنی اس تحقیق و تدقیق کے بارے میں فرمایا ہے:

’میں نے تمام علوم کو قرآن کے علم کے سامنے سجدہ ریز پایا۔ میں نے Cosmology کو قرآن کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا اور یہ سجدہ ریز کس طرح پایا؟ اس طرح کہ خود اس علم کو حقائق کی معرفت آج ہوئی جس سے وہ Developed Scientific Knowledge بنا مگر آج جو معرفتِ علم سائنس کو ہو رہی ہے، وہ 14 سو سال قبل قرآن مجید اور سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں بیان ہو چکی ہے۔ اس قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے بعد اب فہم قرآن فقط علماء تک محدود نہیں رہا بلکہ اُمت محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہر فرد کا اجارہ ہو گیا ہے۔ اس قرآنی انسائیکلو پیڈیا نے ہر شخص کی رسائی قرآن مجید تک کر دی ہے۔ میری آرزو ہے کہ پاکستان میں کوئی گھر اس قرآنی انسائیکلو پیڈیا سے خالی نہ رہے۔‘

3 دسمبر 2018ء کو ایوان اقبال میں ہونے والی قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی تقریب رونمائی میں ہر طبقہ ہائے فکر نے بھی اپنے اپنے تاثرات پیش کیے، جن کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم کے میدان میں اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کے علم کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ اس کو حجت مانتے ہیں۔

محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری (ممبر سپریم کونسل MQI):

قرآن مجید ایک عظیم الشان کتاب ہے جو تمام کائنات کے علوم اور مسائل کے حل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند صدیوں سے قرآنی علم، انسانی زندگی اور نئے پیش آمدہ مسائل کے درمیان تعلق ختم ہونے کی وجہ سے انسانی معاشرہ بہت زیادہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ قرآنی علوم کو آسان اور عام فہم انداز میں عوام تک نہیں پہنچایا گیا۔ بالخصوص نئی نسل اپنی معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کرتی، اس لیے کہ انہیں اس کو سمجھنے اور اس کے مفاہیم و مطالب تک پہنچنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم فرمایا اور ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں ایک ایسا مجدد عطاء فرمایا جس نے ہمارے تعلق کو قرآن مجید سے مضبوط کرنے لیے علمی و فکری کاوشیں کیں۔ انہوں نے نہایت ہی عام فہم، آسان اور پُراثر طریق سے اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں قرآنی علوم کو بیان کیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا کو اٹھائیں تو مایوسی اور تنہائی سے نکلنے اور اصلاح اعمال و احوال کے موضوعات کے تحت نہ صرف اپنی ان خامیوں اور نقائص کے اسباب کو قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں معلوم کر سکتے ہیں بلکہ ان اندھیروں سے نکلنے کا قرآنی راستہ بھی ہمیں یہ انسائیکلوپیڈیا ایک نظم کے تحت فراہم کرتا ہے۔ میں تمام خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے اس عظیم کام پر ان کو سلام پیش کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطاء فرمائے۔

محترمہ بشریٰ رحمٰن (ادیبہ، شاعرہ، دانشور):

شیخ الاسلام نے اکیسویں صدی میں سب سے بڑی اور محترم کتاب لکھ کر ہمارے کئی مسائل کو حل کر دیا۔ یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا نسل در نسل قیامت تک دلوں کو زندہ کرتا رہے گا۔ نگاہوں میں نور بھرتا رہے گا، ہاتھوں کو توانائی عطاء کرتا رہے گا۔ میں انہیں مبارک باد پیش کرتی ہوں اور ان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہوں۔

محترمہ صوفیہ بیدار (کالم نویس، شاعرہ):

آپ نے اس انسائیکلوپیڈیا میں خواتین کے حقوق اور عائلی زندگی کے موضوعات اور مسائل کے عنوانات کو بھی بیان کیا ہے جن کے بارے میں قرآن مجید ہمیں براہ راست رہنمائی عطاء فرماتا ہے۔ مجھے ان میں سے خواتین کے کئی حقوق کا علم پہلی بار ہوا ہے، اس سے پہلے میں ان سے ناآشنا تھی۔

محترم ڈاکٹر محمد اجمل قادری (جمعیت علمائے اسلام)

ڈاکٹر صاحب کی مبارک زندگی خود ایک مستقل قرآنی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے قادریوں کی طرف سے بہت سارے قرض اتار دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ داکٹر صاحب کے علم، عمل اور صحت میں مزید وسعت عطاء فرمائے۔

محترم خالد پرویز (صدر انجمن تاجران آل پاکستان):

شیخ الاسلام کی جملہ خدمات قابلِ تحسین ہیں اور ان کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ آپ نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں ایسا تاریخی کام سر انجام دیا ہے جو ہماری ریاستیں اور حکومتیں بھی نہ کر سکیں۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو تمام تاجر اپنے دفاتر اور گھروں میں رکھیں۔ یہ کتاب آپ کو راہنمائی اور راستہ عطاء کرے گی۔

اس کے علاوہ محترم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)، محترم سید سلیمان گیلانی (معروف شاعر)، محترم جنرل(ر) اعجاز اعوان (دانشور، دفاعی تجزیہ کار)، محمد سید صمصام شاہ بخاری (رہنما پاکستان تحریک انصاف)، محترمہ ڈاکٹر صغریٰ صدف (شاعرہ، ادیبہ) نے شیخ الاسلام کو خراجِ تحسین پیش کیا جس کی تفصیلات ماہنامہ منہاج القرآن کے جنوری 2019ء کے شمارہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

اس دورِ پُرفتن میں اُمت مسلمہ مرکز ہدایت سے تعلق توڑ کر شتر بے مہار کی طرح ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ ایسے حالات میں شیخ الاسلام نے اپنے علم و عمل اور فکر کے خدوخال قرآن سے متعین کر کے اُمت مسلمہ کا قرآن سے ٹوٹا ہوا تعلق قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے ذریعے بحال کر دیا ہے۔ ہر وہ شخص جو عربی اور عربی لغت نہیں جانتا مگر وہ مسلمان ہونے کے ناطے قرآن مجید سے راہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآنی انسائیکلو پیڈیا نے اسے اس طرح قرآن مجید کے علوم تک پہنچا دیا ہے جیسے انگلی پکڑ کر بچے کو ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ لہٰذا قرآنی علوم کو عامۃ الناس تک پہنچانے اور اس کی درس و تدریس کو کلچر کا حصہ بنانے جیسے اہم ترین ہدف کا حصول قرآنی انسائیکلو پیڈیا کو گھر گھر پہنچانے کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔

معزز قارئین!ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک کے مختلف شعبہ جات اور علاقائی تنظیمات صاحبِ ثروت افراد کے ذریعے اپنے اپنے علاقہ کے قومی اور مقامی اخبارات میں انسائیکلو پیڈیا کو متعارف کروانے کے لیے اس کا تعارف رنگین صفحہ پر چھپوائیں، اس کی تقریب رونمائی منعقد کریں، اس سے متعلقہ آرٹیکلز تحریر کریں پھر اس کی بھر پور تشہیر سوشل میڈیا، فیس بک، وٹس ایپ، یو ٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کریں۔ اہل علم، اہل دانش، معروف سیاسی شخصیات، صحافی اور اینکرز تک انسائیکلو پیڈیا بطور گفٹ پہنچائیں اور ان کے تاثرات کو اخبارات کی زینت بنائیں۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے ذریعے رجوع الی القرآن کی تحریک کو جس قدر فروغ دیا جائے گا، اتنا ہی قرآن کی سمجھ بوجھ اور ہدایت ربانی کے گہرے نقوش نسلِ نو کے قلوب و اذہان پر ثبت ہوں گے اور اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ان کا تعلق مزید استوار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم مقصد میں حتی المقدور خلوص دل سے جدوجہد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین بجاہ سید المرسلین)۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، فروری 2019ء

تبصرہ