
معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رئیس احمد نے منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی ادارے ایگرز کے زیرِاہتمام منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ "How Our Mental Health Shapes Our Children" سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچے سیکھ کر پیدا نہیں ہوتے، بلکہ ان کی شخصیت والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول سے تشکیل پاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ والدین بہت کم عمری میں بچوں کو موبائل فون تھما دیتے ہیں، جس سے نہ صرف بچوں کی توجہ منتشر ہوتی ہے بلکہ ان کی جذباتی، ذہنی اور سماجی نشوونما بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر رئیس احمد نے کہا کہ تین سال کی عمر بچے کی ذہنی نشوونما کے لحاظ سے نہایت اہم مرحلہ ہے۔ اس دوران بچے کو الرٹ رکھنا، اس کی ذہنی تربیت اور کونسلنگ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ اس کی شخصیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکے۔
انہوں نے Autism Spectrum Disorder اور Intellectual Disability جیسی نفسیاتی بیماریوں پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ قدرتی امراض والدین کے اختیار میں نہیں ہوتے، مگر ایسے حالات میں والدین کا مثبت رویہ، تعاون اور حوصلہ بچے کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ والدین کی علیحدگی یا طلاق کی صورت میں بچے کی ذہنی کیفیت بری طرح متاثر ہوتی ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو بچے کے سامنے کم سے کم ظاہر کریں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر پُرسکون رہ سکے۔
ڈاکٹر رئیس احمد نے والدین کی دو اقسام بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی قسم وہ ہے جو باہمی محبت، اعتماد اور احترام کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے بچے بھی انہی مثبت رویوں سے سیکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم وہ ہے جو بچوں کے سامنے تنازعات، تناؤ یا لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بچہ کوئی سوال کرے، خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو، والدین کو چاہیے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کریں، اس کے سوال کو توجہ سے سنیں اور رہنمائی فراہم کریں۔ یہی رویہ بچے میں اعتماد، فکری وسعت اور مکالمے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتا ہے۔
آخر میں ڈاکٹر رئیس احمد نے کہا کہ پاکستانی معاشرتی اور اسلامی تناظر میں والدین ہی بچے کی تربیت کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بچے کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیں تو وہ ایک مضبوط، متوازن اور مثبت کردار ادا کرنے والی شخصیت بن کر معاشرے میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ بصورت دیگر، بچے وہ تربیتی صحبت حاصل نہیں کر پائیں گے جو ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔





تبصرہ