دہشت گردی اور خود کش حملوں کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی پریس کانفرنس

اسلام بے گناہ شہریوں کے قتل عام، بازاروں، کاروباری اداروں، مساجد، قومی تنصیبات اور دیگر عوامی مقامات پر بم دھماکوں یا خود کش حملے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ جبکہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے افراد اور گروہ اسلامی تعلیمات سے صریح انحراف اور شرعی طور پر بغاوت و محاربت، اجتماعی قتل انسانی اور فساد فی الارض کے مرتکب ہیں۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے فوجی جوان و افسر اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم شہری از روئے شرع قطعی طور پر شہید ہیں۔ اس بات کا اعلان تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ و چیئرمین پاکستان عوامی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ٹورانٹو کینیڈا سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب میں اپنا تفصیلی فتوی جاری کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے فتویٰ کے پس منظر میں بتاتے ہوئے کہا : گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسلمان من حیث المجموع دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اسکا دور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں وہاں کچھ لوگ اسکی خاموش حمایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی کھلم کھلا مذمت و مخالفت کے بجائے، موضوع کو خلط مبحث کے ذریعے الجھا دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے قومی علاقائی اور بین الاقوامی اسباب میں اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیاں، ان کی طرف سے مسلمانوں کی صریح حق تلفی، عالمی تنازعات میں بالادست طاقتوں کے دھرے معیارات اور محکوم و مظلوم طبقات کے ساتھ نا انصافی جیسے معاملات بڑے بنیادی ہیں۔ اسی طرح دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل و غارت گری، دنیا بھر کی بے گناہ اور پر امن انسانی آبادیوں پر خود کش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، ٹریڈ سنٹروں، دفاعی تربیتی مرکزوں، سفارتحانوں، گاڑیوں اور دیگر سول سوسائٹی کے اہم مقامات پر بمباری جیسے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ لوگ آئے دن سیکڑوں ہزاروں معصوم جانوں کا بے دردانہ قتل اور انسانی بربادی کے انتہائی بہیمانہ اور سفاکانہ اقدامات کو ناجائز طور پر جہاد کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور یوں دہشت گردی اور تصور جہاد کو باہم خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اس سے نوجوان نسل کے ذہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و ابہام کا شکار ہو رہے ہیں۔

علاوہ ازیں مغربی دنیا میں میڈیا اسلام اور عالم اسلام کے حوالے سے صرف دہشت گردی کے اقدامات و واقعات ہی ہائی لائیٹ کرتا ہے اور اسلام کے مثبت پہلو اور سرگرمیاں قطعی طور پر اجاگر نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں پہلے غلط طور پر اسلام اور انتہاء پسندی و دہشت گردی کو باہم بریکٹ کر دیا گیا تھا اور اب صورت حال یہ ہے کہ اسلام کا نام سنتے ہی مغربی ذہنوں میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی تصویر ابھرنے لگ گئی ہے۔ اس سے نہ صرف مغرب میں پرورش پانے والی نوجوان اسلامی نسل انتہائی پریشان، متذبذب اور اضطراب انگیز ہیجان کا شکار ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے نوجوان اعتقادی، فکری اور عملی لحاظ سے متزلزل اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ یہ انتشار رفتہ رفتہ ان کے اندر دین گریزی کے رجحانات کو تقویت دے رہا ہے۔

مزید یہ کہ ایسے حالات عالم اسلام اور مغرب کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں مزید اضافہ کرتے جار ہے ہیں۔ تخریبی طبقات اور انسانیت دشمن طاقتوں کو اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف نہ صرف اپنا کیس مزید مضبوط کرنے کا موقع ملتا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردی کے فروغ سے مسلم ریاستوں میں مزید دخل اندازی اور ان پر دباؤ بڑھائے جانے کا راستہ بھی زیادہ سے زیادہ ہموار ہوتا جا رہا ہے۔ پھریہ خلیج عالمی سطح پر انسانیت کو نہ صرف بین المذاہب مخاصمت کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ عالمی انسانی سوسائٹی میں امن و سکون اور باہمی برداشت و رواداری کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلہ پر ملت اسلامیہ اور پوری دنیا کو حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے اس مقصد کے لیے عربی، انگریزی، اردو اور دنیا کی چند دیگر متداول زبانوں میں اسلام کا دو ٹوک موقف قرآن و سنت اور عقائد و فقہ کی روشنی میں واضح کر دیا جائے۔ یہ موقف شرق تا غرب دنیا کے ہر خطہ میں تمام قابل ذکر اداروں اور موثر طبقات تک پہنچا دیا جائے تاکہ غلط فہمی اور ابہام و تشکیک میں مبتلا جملہ مسلم و غیر مسلم حلقوں کو دہشت گردی کے باب میں اصل تصور کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔

انہوں نے قرآنی آیات، احادیث نبوی، جلیل القدر ائمہ تفسیر و حدیث کی تصریحات اور ائمہ عقیدہ و فقہ کے استدلال کی روشنی میں یہ بات واضح کی کہ بے گناہ و معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اور ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، کسی بھی عذر، بہانے یا وجہ سے ایسے عمل کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔

مزیدبرآں کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے۔ اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر مسلم طاقتوں کا مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو اور مسلم حکومتیں اس پر خاموش ہی کیوں نہ ہوں، پھر بھی اسلامی ریاست کے کسی گروہ کو انفرادی طور پر ایسے ظلم کے خلاف جہاد کے نام پر بھی مسلح جدوجہد کرنے اور رد عمل کے طور پر بھی مسلم یا غیر مسلم بے گناہ اور غیر حربی آبادیوں کو خود کش حملوں کے ذریعے تباہ کرنے اور قتل عام کرنے کی اجازت نہیں۔ چہ جائیکہ غیر مسلم بربریت کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو گھروں، بازاروں اور مسجدوں میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے۔ ایسے عمل کو جہاد کہنا سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔

انہوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والی جارحیت اور کشمیر، فلسطین، عراق اور افغانستان میں بے گناہ، مسلمانوں پر جاری فوج کشی کی بھرپور مذمت کی مگر ساتھ یہ بھی قرار دیا کہ اس کو جواز بنا کر بے گناہ مسلمانوں اور پر امن غیر مسلح شہریوں، خواہ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک یا مذہب سے کیوں نہ ہو، کی قتل و غارت گری اور ان پر دہشت گردی خلاف اسلام اور تعلیمات اسلام سے صریح انحراف ہے۔ انہوں نے بے شمار قرآنی آیات و احادیث، واقعات سیرت نبوی، آثار و اقوال صحابہ اور ائمہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی توضیحات کی روشنی میں یہ بات واضح کی کہ اسلام حالت جنگ میں بھی پر امن شہریوں، خواتین، بچوں، بیماروں، ضعیفوں کو قتل کرنے حتی کہ دشمن ملک کی املاک، درختوں، فصلوں اور عبادت گاہوں، کو نشانہ بنانے سے منع کرتا ہے۔ چہ جائیکہ کہ کوئی گروہ از خود جہاد کے نام پر کلمہ گو مسلمانوں اور پر امن غیر مسلم شہریوں کا قتل عام شروع کر دے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عناصر دراصل اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دہشت گردوں کے اقدامات پاکستان کو غیر مستحکم کرنے، اس کے امن کو تباہ کرنے، اس کی معیشت کو برباد کرنے اسے ایک ناکام ریاست قرار دینے اور پھر اس کے جوہری اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے کر بیرون سامراجی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی گھمبیر و گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس بات کے واضح شواہد سامنے آچکے ہیں کہ یہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ممالک کے بنے ہوئے اسلحہ اور بارود کا استعمال کر رہے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھوں آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ اُن سے اسلحہ لے رہے ہوں، یا تربیت، مالی مدد لے رہے ہوں یا logistic support ان کا یہ عمل بلاشبہ اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک گھناونی سازش کا حصہ ہے۔

انہوں نے احادیث اور اقوال صحابہ اور توضیحات ائمہ کی روشنی میں یہ بات واضح کی کہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلا دہشت گرد فتنہ خوارج اور حروریہ کا تھا جو دور خلافت راشدہ میں ہی چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضی کے خلاف اٹھا۔ ان خوارج نے آپ رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دے کر آپ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان الحکم الا ﷲ یعنی قانون الٰہی کی بالادستی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مسلح دہشت گردی کو جہاد کا نام دیا۔ ان خوارج کی نشاندہی حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے 50 سے زائد احادیث میں کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جہاں بھی ان سے مقابلہ ہو ان کا قلع قمع کر دیا جائے لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام نے ان خوارج کی سرکوبی کے لئے باقاعدہ جہاد کیا تھا۔

اہل علم کو، ارباب دانش کو، رائے عامہ پر اثر رکھنے والے ہر طبقے کو اور ہر پاکستانی شہری کو اب اس بحث سے نکل جانا چاہیے کہ یہ کون ہیں، ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں، ان کا عذر کیا ہے، یہ کس چیز کا رد عمل ہے۔ ایسے دہشت گرد عناصر جو بھی ہیں، ان کا نعرہ جیسا بھی ہے، ان کا تعلق کہیں سے بھی ہے ان کا پس منظر جیسا بھی ہے یہ اسلام کے دشمن ہیں۔ ان کے اقدامات اسلام کے خلاف ہیں، امت مسلمہ کے خلاف ہیں، پاکستان کے خلاف ہیں، اسلامی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ ان کے ہر عمل کا نتیجہ اسلام، امت مسلمہ اور پاکستان کا نقصان ہے۔ ان کا وجود پاکستان کی بقا و سالمیت، اسلام کے تشخص اور اسلامی تہذیب و تمدن کی شناخت کے لئے ایک کھلا خطرہ ہے۔ پوری قوم کو بیک زبان ہو کر ہر سطح پر ہر ممکن طریق سے ایسے دہشت گرد عناصر کی بھر پور مذمت اور ان سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔ پاکستانی قوم کو اس وقت حالت جنگ کا سامنا ہے، لہذا قومی یک جہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے پوری قوم کو چاہیے کہ قومی دفاع اور تحفظ پاکستان اور بے گناہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں مصروف افواج پاکستان کے ساتھ مکمل اظہار یک جہتی کریں۔

انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کا یہ فتوی نہ تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت ہے اور نہ ہی ان کے توسیع پسندانہ عزائم اور اقدامات کی کسی بھی طرح تائید۔ اسی طرح یہ حکومت پاکستان کی متنازعہ پالیسیوں، غیر مقبول طرز حکومت اور غیر جمہوری رویوں کی توثیق بھی نہیں ہے۔ یہ فتوی انہوں نے قرآن و حدیث اور کتب تفسیر اور عقائد و فقہ کی روشنی میں دہشت گردی کی حیثیت کو واضح کرنے اور اسلام کا کیس پوری دنیا کے سامنے صحیح طور پر اجاگر کرنے کے لئے دیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تفصیلی فتوی ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل تحریر کر دیا ہے جس میں درجنوں آیات قرآنی، بیسیوں احادیث نبوی، ائمہ و تفسیر، حدیث اور عقائد و فقہ کی درجنوں کتب سے استدلال کی روشنی میں اپنے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ اسی ہفتے کتابی صورت میں اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں بیک وقت شائع کیا جا رہا ہے۔

تبصرہ