ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات ۔ علامہ محمد حسین آزاد

قسط نمبر19

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔

7۔ مقام محمود کے علمی و تحقیقی و تفسیری نکات

اللہ رب العزت نے حضور سرور کائنات ا کو بعض ایسے خصائص و امتیازات سے نوازا ہے جو بے حد و بے مثال ہیں۔یہ خصائص و امتیازات قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں جن سے حضور اکرم ا کی دیگر انبیاء و رسل پر فضیلت کا اظہار ہوتا ہے۔انہی خصائص و امتیازات میں سے ایک نہایت اہم خصوصیت اور امتیازی وصف آپ کو روزِ قیامت مقام محمود پر فائز کیا جانا ہے۔جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِه نَافِلَةً لَّکَ ق عَسٰی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo

(بنی اسرائيل، 17: 79)

’’اور رات کے کچھ حصہ میں(بھی)قرآن کے ساتھ(شب خیزی کرتے ہوئے)نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی)ہے یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا(یعنی وہ مقام ِشفاعت ِ عظمیٰ جہاں جملہ اولین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)‘‘

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ روز قیامت حضور ا ہی تمام بنی نوع انسان کے رہبر و رہنما اور قائد ہونگے اور انبیاء ورسل عظام کے امام ہونگے۔آپ ا فرشتوں کے جلو میں براق پر سوار ہونگے۔لواء حمد آپ کے دست اقدس میں ہو گا اور اولین و آخرین سارے انسان مل کر آپ کی حمد و تعریف کر رہے ہونگے۔آپ ا لباس فاخرہ زیب تن کئے ہونگے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عرش پر خصوصی نشست پرجلوہ افروز ہونگے۔تمام انبیاء کرام کی اُمتیں آپ ا سے اللہ کے حضور شفاعت طلب کریں گی۔ اس موقع پر حضور اکرم ا کے پاس شفاعت ِکبریٰ کا اختیارہو گا اور سب سے پہلے اپنی گناہگار امت کی شفاعت فرمائیں گے ۔اس وقت آپ اسی مقام محمود پر متمکن ہوں گے۔

مذکورہ آیت کریمہ کے تفسیری معارف اور علمی و تحقیقی نکات سے پردہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب مقام محمود کے صفحہ نمبر19 پر رقمطراز ہیں:

’’اس آیت میں ایک اور خاص نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ا کو نمازِ تہجد ادا کرنے کا حکم دیا اور بطور صلہ روزِ قیامت آپ اکو مقامِ محمود پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا۔ ذرا غور کریں کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ا کی تہجد کی نفلی نماز کا صلہ یہ دیا کہ انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما دیا تو حضور نبی اکرم اکے فرائض کا صلہ کیا ہو گا؟ یقینا وہ صلہ ہماری سوچ سے بھی بالا ہو گا‘‘۔

وہ مقامِ محمود کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب اپنی مذکورہ کتاب میں اس پر تفصیل سے بحث کرتے ہیں۔اختصار کے پیش ِ نظر تفردات و امتیازت پر مشتمل چند اقتباسات دیئے جا رہے ہیں:

  1. اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام کے آغاز میں اپنا تعارف: ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ کے الفاظ میں کروایا۔ حمد بڑی عظیم شے ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس بناء پر وہ محمود بھی ہے۔ وہ اس وقت بھی محمود تھا جب اس کی تعریف کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ حمد چونکہ اس کی ذاتی خوبی ہے اور یہ ذاتی خوبی مخلوق کی احتیاج سے بھی ماوراء ہے۔ وہ تعریف کرنے والوں کا محتاج نہیں ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ سب تعریف کرنے والوں کی تعریف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اس نے تعریف کرنے والوں کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ کوئی حامد تعریف کرے یا نہ کرے، وہ اپنی ذات میں ہر حمد کا حق دار ہے، ہر خوبی کا سزاوار وہی ہے۔ اس حمد کی بناء پر وہ محمود ہے۔جو وسعت، جامعیت، ہمہ گیریت اس حمد میں ہے وہی جامعیت و وسعت حضور نبی اکرم ا کی شانِ مقامِ محمود میں بھی ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث فرمائے مگر کسی کے مقام کا نام ’’مقامِ محمود‘‘ نہیں رکھا، کیونکہ محمود اس کا اپنا ذاتی نام ہے جو ہر حمد کا سزاوار ہے۔ حقیقی محمود چونکہ اﷲ تعالیٰ ہی کی ذاتِ بابرکات ہے اس لئے اس نے مقامِ محمود کے لئے محمد ا کو چنا ہے۔ آپ غور کیجئے اِدھر قرآن حمد سے شروع ہو رہا ہے اور ’’الحمد ﷲ‘‘ کہہ کر اعلان ہو رہا ہے کہ محمودِ حقیقی صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ جبکہ روزِ قیامت جب انتہائے کائنات کا وقت ہو گا تو اﷲ رب العزت حضور نبی اکرم اکو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور پھر خود حضور نبی اکرم ا کی حمد بیان کر کے یہ واضح فرمائے گا کہ آج انتہائے حمد کا سزا وار صرف میرا محبوب ہے۔ گویا اﷲ رب العزت فرما رہے ہیں: محبوب! تیری شانِ حمد کا عالم یہ ہے کہ یہاں اس دنیا میں محمود میرا نام ہے اس کو روزِ قیامت تیرا مقام بنا دوں گا۔ حضور ا کے مقام کو مقامِ محمود کہہ دینا کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔ بلکہ اﷲ رب العزت نے قرآن مجید کے نزول کے وقت یہ کہہ دیا کہ محبوب! تُو رات کی خلوت میں میری بارگاہ میں حاضر ہوا کر، میں تجھے روزِ قیامت جمیع مخلوق کے اجتماعِ عظیم میں مقامِ محمود پر فائز فرما دوں گا۔
  2. جب ہم حمد کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے اطلاق کے بارے میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ یہ لفظ صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے بولا جا سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم ا کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنا جائز نہیں۔ یہ نظریہ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ حضور ا کے لئے نعت کا لفظ تو ٹھیک ہے، حمد کا لفظ ٹھیک نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ا کا نام ہی محمد رکھا ہے۔ محمد کا لفظ بھی حمد کی طرح ’’مَدَحَ‘‘ سے مشتق ہے۔ محمد مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے: ’’جس کی بار بار اور بے حد و حساب حمد کی جائے۔‘‘ دراصل حضور اکی حمد ہی اﷲ تعالیٰ کی حمد ہے۔ بلکہ حضور نبی اکرم ا کی حمد اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی اور اعلیٰ حمد ہے۔

جیسے ایک معمار کوئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ لوگ اگر اُس کی تعمیر کردہ عمارت کی خوبیاں بیان کریں یا اُس کے حُسنِ تعمیر کو سراہیں تو کیا وہ اس تعریف سے ناراض ہو گا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ایفل ٹاور، بادشاہی مسجد، شالامار باغ، تاج محل، آپ اِن عمارات کی بے حد و حساب اور مبالغہ کی حد تک تعریف کریں تو کیا اِس تعریف سے اِن عمارتوں کے معمار ناراض ہوں گے؟ ہاں اگر ساتھ کوئی دوسری عمارت ہے اُس کی تعریف کی جائے اور مذکورہ عمارت کی تعریف نہ کی جائے تو وہ معمار ناراض ہو گا لیکن اگر عمارت ہی ایک ہو اور آپ ساری عمر اُس کی تعریف کرتے رہیں تو اُس عمارت کا تعمیر کرنے والا کبھی ناراض نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ دراصل اُس کے تخلیق کردہ فنِ تعمیر کی تعریف ہو رہی ہے، جو براہِ راست اُس کی اپنی تعریف ہے۔ معمار کو تو کسی نے دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا لیکن عمارت تو سب نے دیکھی ہے۔ گویا عمارت کی تعریف دراصل معمار کی تعریف ہے۔ اسی طرح اﷲ رب العزّت کو تو کسی نے نہیں دیکھا لیکن حضور نبی اکرم اکو تو سب نے دیکھا۔ اب حضور نبی اکرم ا کی تعریف کرنا دراصل اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔

اِسی طرح شاعر کی مثال ہے، آپ اُس کے دیوان کی تعریف کریں، اُس کی شاعری کی تعریف کریں تو وہ اس بات پر خوش ہو گا۔ شاعری کی تعریف دراصل شاعر کی ہی تعریف ہے۔ آپ علامہ اقبال کی تعریف اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کا کلام بہت جامع ہے۔ کلام اچھا ہے تو صاحبِ کلام بھی اچھا ہے۔ آپ کوئی پراڈکٹ لے لیں، دنیا کی کوئی صنعت لے لیں جب اس کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اس کی کمپنی کی تعریف ہوتی ہے۔ یہ پوری کائنات کا قاعدہ ہے۔

درج بالا مثالوں سے وضاحت کے بعد یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضور نبی اکرم ا کی تعریف اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہرگز نہیں بلکہ رحمتِ الٰہی کا باعث ہے۔ اب اس بات کا جھگڑا نہیں رہتا کہ اگر کوئی حضور نبی اکرم اکی تعریف کرتا جائے اور کرتا ہی رہے، اﷲ تعالیٰ اس کو سو سال عمر دے اور وہ ساری عمر حضور نبی اکرم ا کی تعریف کرتا رہے تو اس بات سے اﷲ رب العزت کبھی ناراض نہیں ہو گا۔ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی خوشی کیا ہو گی کہ میں نے جو محمد (ا) بنایا ہے ساری کائنات اُسی کی تعریف کر رہی ہے۔ مخلوق کی تعریف کرنا دراصل خالق کی ہی تعریف ہے۔ حضور نبی اکرم ا اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ حضور نبی اکرم ا سب سے حسین ہیں تو یہ دراصل اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے کہ اُس نے حسین بنایا ہے۔ اولاد کی تعریف سے ہمیشہ ماں باپ خوش ہوتے ہیں، تصویر کی تعریف سے مصوّر خوش ہوتا ہے، شاگرد کی تعریف سے استاد خوش ہوتا ہے۔ اگر اولاد کی تعریف پر والد ناراض ہو کہ میری اولاد کی تعریف کیے جا رہے ہیں میری کوئی تعریف ہی نہیں کر رہا۔ مصنف کی کتابوں کی تعریف کریں اور مصنف ناراض ہو جائے کہ میری کتابوں کی تعریف کر رہے ہیں میری تعریف ہی کوئی نہیں کر رہا تو ایسا کہنا دراصل دماغ کی خرابی کا باعث ہے ورنہ اولاد کی تعریف والدین کی ہی تعریف ہے اور کتاب کی تعریف دراصل مصنف کی ہی تعریف ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:(الحمد ﷲ) ’’ساری تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں۔‘‘یہ سن کر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ باری تعالیٰ تُو ساری تعریفوں کا حق دار کیوں ہے؟ اس کی کوئی دلیل بھی تو ہو گی؟ اس نے ساتھ ہی جواب دیا:(ربّ العالمین) اس لئے کہ میں سارے جہانوں کا رب ہوں۔ میں نے سارے جہانوں کو بنایا ہے۔ جو کچھ میں نے بنایا ہے اس کو دیکھ لو کہ میں قابلِ تعریف ہوں یا نہیں۔ جو اﷲ تعالیٰ بناتا ہے اگر وہ قابلِ تعریف ہے تو یہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ ہر شے میں اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ اگر کسی نے اولیاء اﷲ کی تعریف کی تو اﷲ تعالیٰ کبھی ناراض نہ ہو گا کہ اُسی نے ہی تو ولایت دی ہے۔ کسی نے انبیاء کرام علیھم السلام کی تعریف کی تو اﷲ تعالیٰ کبھی ناراض نہیں ہو گا کہ اُسی نے ہی تو نبوت دی ہے لہٰذا ان کی تعریف اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ساری عمر حضور نبی اکرم ا کی ہی تعریف کرتا رہے تو اس سے اﷲ تعالیٰ ناراض نہیں ہو گا۔ حضورا کی تعریف جس جس جہت سے کرتے رہیں وہ سب الحمد للہ کے ضمن اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم ا جو کچھ ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے بنانے سے ہیں۔ حضور اکا خالق و معمار اﷲ تعالیٰ ہے۔ اس لئے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ حمد کا لفظ صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے جائز ہے۔

  1. تعریفوں کی بھی ایک حد ہے اور تعریف کرنے والوں کی بھی ایک حدہے۔ فرمایا: حمد کا حق دار میں ہوں اور میں ہی محمود ہوں۔ قیامت تک محمود میرا نام رہے گا جب یہ کائنات ختم ہو گی تو اپنے اِس ’’محمود‘‘ نام کو اپنے محبوب کا مقام کر دوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شانِ اُلوہیت کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی جو بھی تعریف کی جاتی رہی روزِ قیامت حضور نبی اکرم ا کو اُن ساری تعریفوں کا عکس بنا دیا جائے گا۔ ساری اُمت مل کر حضور نبی اکرم اکو مقامِ محمود پر فائز نہیں کر سکتی تھی کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا نام ہے اور یہ اُس کی ہی شان ہے کہ اُس نے اپنے نام کو اپنے محبوب کا مقام بنا دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنے بہت سے نام حضور نبی اکرم  کو عطا کر رکھے ہیں۔ جیسے اﷲ تعالیٰ شہید ہے اور اُس نے یہ نام حضور نبی اکرم ا کو بھی عطا کر رکھا ہے۔۔۔۔ وہ رحیم ہے حضور کو بھی رحیم بنا دیا ہے۔۔۔۔ وہ رؤف ہے حضور کو بھی رؤف بنا دیا۔۔۔ وہ سمیع و بصیر ہے حضور نبی اکرم  کو بھی اس نے سمیع و بصیر بنا دیا ہے۔ اُس نے بہت سے نام جو اُس کی شان کے لائق تھے پہلے ہی حضور نبی اکرم  کو اُن کی شان کے لائق عطا کر دئیے ہیں۔ نام تو پہلے ہی حضور نبی کرم اکو عطا کر رکھے ہیں لیکن روزِ قیامت جو اپنا نام ہو گا اُسے حضور کا مقام بنا دیا جائے گا۔ اُس روز ساری مخلوق اور اُس کا خالق حضور ا کی حمد کر رہے ہوں گے۔ گویا قیامت کا قانون بدل جائے گا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ دنیا میں تو اﷲ تعالیٰ کی حمد ہوتی تھی جبکہ قیامت کے روز سب مخلوق اپنے خالق سمیت حضور نبی اکرم ا کی حمد کر رہے ہوں گے، ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حمد ایک عملِ صالح ہے، یہ زبان کی عبادت ہے، جو اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اُسے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے۔ لیکن جس دن قیامت قائم ہو گی سارے عمل ختم ہو جائیں گے اور اُن پر ملنے والا اجر بھی ختم ہو جائے گا۔ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہو گا مگر اس دن پانچ نمازیں فرض نہیں ہوں گی۔ جو عمل ہو چکا اُس کی جزا و سزا کا دن یومِ قیامت ہے۔ اس دنیا میں جو اﷲ کی حمد کرتے تھے اﷲ تعالیٰ اس کا اجر دیتا تھا۔ قیامت کے دن قانون بدل دیا جائے گا کہ آج اجر ختم۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا آج مخلوق بھی محمد (ا) کی حمد کرے گی اور میں بھی اُس کی حمد کروں گا۔ ساری کائنات حامد ہو گی اور حضور اکی ذات محمود ہو گی۔ بے شک اﷲ تعالیٰ کی بھی حمد ہو گی۔ انبیاء کرام علیھم السلام اور حضور نبی اکرم ا حمدِ الٰہی کریں گے۔ لیکن حضور نبی اکرم ا کو یہ مقام حاصل ہو گا کہ ساری مخلوق اور خالق مل کر آپ اکی تعریف کریں گے۔ اس لئے روزِ قیامت حضور نبی اکرم ا کو عطا کیے جانے والے مقام کا نام محمود رکھا اور اس دنیا میں اس مقامِ محمود کے حامل کا نام محمد (ا) رکھا۔

  1. محمد مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہے جس کی بہت زیادہ اور بار بار تعریف کی جائے۔ جبکہ محمود کا معنی ہے جس کی تعریف کی جائے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے باری تعالیٰ بہت زیادہ تعریف تو تیری ہے، اس لئے کہ تو خالق ہے۔ حضور ا کا جتنا بھی مرتبہ ہو بہر صورت وہ تیری مخلوق ہیں، تیرے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور تیرے مقرب و محبوب بندے ہیں۔ ایمان اور معرفت کے بغیر عقلِ مادی یہ سوچتی ہے کہ باری تعالیٰ محمد تو تیرا نام ہونا چاہئے تھا کیونکہ سب سے زیادہ تعریف تو تیری ہوتی ہے۔

اس کا جواب اﷲ تعالیٰ بصورتِ معرفت یہ دیتا ہے کہ ذہنِ انسانی کا یہ سوال غلط ہے، میں نے کبھی کوئی نام غلط نہیں رکھا۔ میں غلطی سے پاک ہوں۔ میں نے اگر اپنا نام محمود اور اپنے محبوب کا نام محمد رکھا ہے تو درست رکھا ہے۔ اس لئے کہ میری تعریف ساری مخلوق کرتی ہے۔ اگر محمد مصطفی ا بھی میری تعریف کرتے ہیں تو وہ بھی میری مخلوق ہی ہیں۔ جبکہ محمد ا کی تعریف میں بھی کرتا ہوں اور ساری مخلوق بھی کرتی ہے، جس کی تعریف میں کروں اس کی بہت زیادہ تعریف ہو گی یا جس کی تعریف صرف تم کرو اس کی بہت زیادہ تعریف ہو گی؟ حضور نبی اکرم ا کو محمدیت کا مقام اس لئے ملا کہ اﷲ رب العزت آپ ا کی تعریف بیان کرتا ہے اگر اﷲ تعالیٰ آپ اکی تعریف نہ کرتا تو حضور نبی اکرم ا مقامِ محمدیت تک نہ پہنچتے۔ مقامِ محمود تو حضور نبی اکرم ا کے نوافل کا صلہ تھا، مقامِ محمدیت حضور اکے فرائض کا صلہ ہے۔ مگر اصل بات اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ حمد کسی عمل کے صلہ میں نہیں ہوتی، بلکہ عمل کے صلہ سے بے نیاز ہے۔ اس لئے حضور نبی اکرم ا اﷲ تعالیٰ کی حمد کرنے والے تو بعد میں بنے لیکن اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ا کو اوّل دن سے محمد کر دیا۔ جس کی تعریف اﷲ کر دے اس کی تعریف حد سے بڑھ گئی۔ یوں حضور اکی تعریف جب اﷲ تعالیٰ نے حد سے بڑھا دی تو حضور اکی تعریف حد سے بڑھانے والے ہم کون ہیں؟ ہم خود محدود ہیں، محدود کسی کو حد سے کیسے بڑھا سکتا ہے؟ ہم تو خود حد میں ہیں، ہمارا بیان، فہم، شعور، کلام سب حد میں ہے۔ ہم حضور نبی اکرم ا کی جتنی بھی تعریف کریں، حد سے آگے جا ہی نہیں سکتے۔ ہم اُنہیں حد سے بڑھا ہی نہیں سکتے۔ حد سے تو اُس نے بڑھایا ہے جس نے آپ کا نام ہی محمد(ا) رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام کی ابتداء حمد سے کی اپنا نام بھی حمد سے نکالا اور ’’محمود‘‘ رکھا، اور مخلوقات کے نقشِ اول کا نام ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ رکھا۔۔۔۔ سارے لفظ حمد سے نکالے، اپنی پہچان بھی محمود کہہ کر کرائی، اپنا کلام بھی حمد سے شروع کیا، نام بھی محمود رکھا اور اپنے محبوب اکو مقام بھی محمود عطا کیا۔ اپنے اور اپنے محبوب کے جملہ معاملات و مقامات حمد کے گرد گھمائے۔

  1. لفظِ حمد صرف تعریف کو ہی بیان کرتا ہے اور جہاں صرف تعریف ہی ہو وہاں نقص ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً جاننا خوبی ہے اور نہ جاننا نقص ہے چونکہ حضور ا کو محمد بنا دیا، سب سے بڑھ کر تعریف کر دی تو حضورا کے بارے میں علم ہی علم منسوب ہو گا، عدمِ علم کی نسبت حضور اکی طرف کر ہی نہیں سکتے۔ اگر ایسا کریں تو آپ ا محمد نہیں رہتے۔ کوئی کام کر سکنا خوبی ہے، نہ کر سکنا نقص ہے۔ نقص ہو تو حمد نہیں ہوتی گویا اگر ایک گوشے سے بھی حمد نکل گئی تو محمد (ا) نہ رہے۔ عطا کرنا خوبی ہے اگر عطا نہ کر سکیں تو یہ نقص ہے اور اگر نقص آ جائے تو وہ محمد نہ رہے۔ ہم درود و سلام پڑھیں اور وہ وہاں سے سنیں یہ خوبی ہے اگر نہ سن سکیں تو یہ نقص ہے، نقص آ گیا تو حمد نہ رہی، حمد نہ رہی تو محمد(ا) نہ رہے۔ حضورا کی شان مطلق حمد ہے۔ محمد کے نام میں وہ خوبی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے نام سبحان میں رکھی ہے۔ سبحان کا معنی ’’پاک‘‘ ہے یعنی وہ ذات، ہر نقص، کمی، کجی اور ہر اُس کمزوری سے پاک ہے جو اُس کی شان کے لائق نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی شانِ سبحانیت کا عکس حضور نبی اکرم ا کی شانِ محمدیت پر ہے۔
  2. مقامِ محمود ہی درحقیقت وہ مقام ہے جہاں سے آپ ا شفاعتِ کبریٰ فرمائیں گے۔ جملہ مخلوق آپ کی تعریف کرے گی۔ ذرا چشمِ تصور میں لائیں کہ کیسا رفیع الشان مقام ہو گا جب شانِ محمدیت ا کا کامل ظہور ہو گا اور جملہ اوّلین و آخرین حمد و ثنائے محمد اکر رہے ہوں گے۔ کرمِ مصطفی ا کی تجلیاں افزوں تر ہوں گی۔ تمام اہلِ محشر تو پل صراط سے گزرنے میں مشغول ہوں گے مگر حضور شافعِ محشر ا پل صراط کے کنارے کھڑے کمال گریہ و زاری سے اپنی عاصی و گنا ہگار اُمت کی نجات کی فکر میں غلطاں و پیچاں اپنے خالق و مالک سے دعا کر رہے ہوں گے ’’ربّ سلّم، ربّ سلّم‘‘ ’’پروردگارِ عالم انہیں سلامتی و عافیت سے پار لگا دے۔‘‘ مولا! ان خطا کاروں کو بچا لے… انہیں اپنے دامنِ عفو و کرم میں پناہ عطا فرما دے… اے احکم الحاکمین! تجھے تیری رحمت کا واسطہ ان عاصیوں اور سیاہ کاروں کو نجات عطا فرما‘‘۔
  3. روزِ محشر حضور سرورِ کائنات ا کسی ایک مقام پر تشریف فرما نہیں رہیں گے بلکہ مختلف مقامات پر تشریف لائیں گے، کیوں؟ اس کی حکمت اور ضرورت یہ ہے کہ جن جن مقامات اور مراحل پر اُمت کو آپ ا کی دستگیری اور نظرِ کرم کی ضرورت ہو گی وہاں وہاں آپ ا اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور رضا کا دامن تھام کر تشریف فرما ہوں گے۔ کبھی حوضِ کوثر پر اپنے چاہنے والوں کو جام پلائیں گے، کبھی پل صراط سے گزرتے وقت گناہگاروں کا ہاتھ تھامیں گے اور کبھی جہنم میں جانے والوں کو عذابِ الٰہی سے نجات دلا رہے ہوں گے۔ اِس نفسا نفسی کے عالم میں صرف آپ اکی ذات ہو گی جو اﷲ تعالیٰ کے خصوصی اذن سے اُس کی مخلوق میں بخشش و مغفرت اور اُس کے کرم و عطا کی خیرات تقسیم کر رہی ہو گی۔

اگر آپ ا ایک ہی جگہ پر جلوہ افروز رہتے تو نہ جانے میزان پر آفت رسیدوں اور غم زدوں پر کیا گزرتی۔ کون سا پلہ بھاری ہو جائے۔ ادھر کرم نہ فرمائیں تو یہ بے کس و بے چارے، بے یار و مددگار رہ جائیں۔ غرض ہر جگہ آپ ا کے نام کی دُہائی ہو گی۔ ایک آپ ا کا کرم ہو گا اور جہاں بھر کی خبر گیری ہو گی۔ اتنا عظیم اژدھام اور اس قدر مختلف کام اور پھر عطائے مصطفی ا کی عطر بیز ضوفشانیاں عجیب سماں بندھا ہو گا۔ اس درجہ فاصلوں پر مقام اور آپ ا کو ہر ایک دوسرے سے اس طرح زیادہ پیارا ہے جیسے ماں کا اکلوتا بچہ۔ قلبِ مصطفی اپر ہجومِ آلام ہو گا لیکن زبان پر خدا کا نام ہو گا۔ آنکھوں سے اشک رواں ہوں گے اور ہر طرف بے تابانہ رواں ہوں گے۔ اِدھر گرتے کو سنبھال رہے ہوں گے اور اُدھر ڈوبتوں کو نکال رہے ہوں گے۔ یہاں رونے والوں کے آنسو پونچھ رہے ہوں گے اور وہاں آگ میں جلنے والوں کو دوزخ سے نکال رہے ہوں گے۔ الغرض ہر جگہ آپ اکی دہائی ہو گی۔ ہر شخص عام و خاص آپ اہی کو پکار رہا ہو گا۔

اِس پکار، فریاد اور داد رسی کے عالم میں ایک مقام ایسا بھی ہو گا جہاں اﷲ تعالیٰ، ابد سے ازل تک کے تمام انسانوں اور جملہ اُمتوں کو اُن کے انبیاء و رسل کے ساتھ اکٹھا فرمائے گا، سب کے لبوں پر اﷲ تعالیٰ کی حمد اور حضور نبی اکرم ا کی تعریف و توصیف ہو گی اور پھر اِسی منظر میں اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب اور ہمارے آقائے نامدار کو اپنے ساتھ عرش پر جلوہ فرمائی کا حکم دے گا۔ یہی مقام، مقامِ محمود ہو گا۔ آپ ا اِسی مقامِ محمود پر فائز ہو کر اوّلین و آخرین کو فیضیاب فرما رہے ہوں گے۔

(طاہرالقادری،ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، مقام محمود، لاہور ، پاکستان، منہاج القرآن پبلیکشنز، ص22 تا34)

اس آخری فصل میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مختلف آیات کی تفسیری کتب سے تفردات و امتیازات بحوالہ نقل کئے گئے جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کا اندازِ تحقیق نہایت جاندار،موثر اور قلب روح کو تازگی فرحت اور ایمان کو جلا بخشنے والا ہے۔ وہ قاری کو آیت کے حقیقی معنی و مفہوم تک نہ صرف رسائی دلاتے ہیں بلکہ موجودہ کتابی علم سے ہٹ کر اس کی اصل حقیقت سے بھی آشنا کرتے ہیں بلاشبہ یہ ان کے تفردات و امتیازات ان کے علمی خلوص، عملی سعی و کاوش، باطنی لطافت، روحانی کیف و مستی اور حسن نیت کے آئینہ دار ہیں جن سے تشنگان علم و حکمت سیراب ہوتے رہیں گے۔

اس تحقیقی مقالہ میں بھی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے وہ تفسیری تفردات و امتیازات کو احاطہ تحریر میں لایا جائے جو ان کی تفسیری کتب یا ان کی ذات پر لکھی جانے والی کتب میں ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں بہت سے تفردات ایسے بھی ہیں۔ جو ان کے کئی خطابات میں موجود ہیں مگر ابھی تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوئے۔ یہ تو صرف تفسیری تفردات کا جائزہ ہے ۔موصوف کے مختلف احادیث مبارکہ کی تشریح تفصیل میں نئے تحقیقی نکات اتنے کثیر ہیں۔جن پر ایک الگ کتاب شائع ہو سکتی ہے۔

دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سعی وکاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں ان تفسیری نکات کو پڑھ کر سمجھنے اور آگے منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔ بجاہ سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم۔

تبصرہ