اسلام کا نظام طہارت و نظافت

قسط اول

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

اسلام انسان کے ظاہر کو بھی سنوارتا ہے اور باطن کو بھی اور اسے اعلیٰ صفات سے آراستہ کرتا ہے۔ باری تعالیٰ نے انسانی جسم کو تندرست اور صحت مند رکھنے کے لئے 24گھنٹوں میں سے 5 اوقات کے لئے طہارت خمسہ کو لازم ٹھہرایا ہے۔ پانچوں نمازوں سے قبل طہارت کا اہتمام ضروری قرار دیا ہے۔ حدث ظاہری ہو یا حدث معنوی ہو، اس کو دور کرکے نماز کے لئے طاہر ہونا ایک مسلمان کے لئے فرض ہے۔

طہارت کی حقیقت

حدث انسان کو ناپاکی کی طرف لے جاتا ہے جبکہ طہارت انسان کو پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے۔ حدث سے انسان ناپاک ہوتا ہے اور طہارت سے انسان پاک ہوتا ہے۔ حدث رابطہ توڑنے کا باعث بنتا ہے اور طہارت رابطہ جوڑنے کا سبب بنتی ہے۔ رب کی معرفت اور قربت اور اس کی عبادت میں حلاوت، طہارت سے میسر آتی ہے۔ اس لئے اس بات کا اہتمام کیا کہ انسان نے جب بھی اپنے مولا سے دید و ملاقات چاہے تو یہ اعزاز بغیر طہارت کے اسے نہیں مل سکتا۔ طہارت اسلام کی تعلیمات کی حقیقت مسلمہ ہے، اسلام طہارت کو محدود نہیں کرتا بلکہ وسیع تر طہارت کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم طہارت کو علم فقہ کے ساتھ ہی مختص کردیں گے تو پھر فعل مکلف تک یہ محدود رہ جائے گی اور بندے کے عمل میں سے بھی وہ فعل جو عبادت کے لئے ہے اس تک ہی مقید رہ جائے گی جبکہ ہر وہ عمل جس کا مقصد رب کی فرمانبرداری اور اس کے حکم کی بجا آوری اور اس کی رضا جوئی ہے وہ بھی بدرجہ اتم اس میں شامل ہونا چاہئے۔

طہارت کو اگر ایک بندے ایک مسلمان اور ایک انسان کو مجموعی زندگی کے تناظر میں دیکھیں تو حیات کی ابتداء بھی طہارت ہے اور اس کی انتہاء بھی طہارت ہے۔ طہارت سے وابستگی کمال حیات ہے۔ طہارت سے لاتعلقی زوال حیات ہے۔ طہارت کی پابندی صحت ہے۔ طہارت سے بیزاری بیماری ہے۔ طہارت سے نشاط حیات ہے طہارت سے غفلت ثقل حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نگاہ نبوت میں طہارت وسیع المعنی لفظ ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:

الطهور شطر الايمان.

’’صفائی (پاکیزگی) نصف ایمان ہے‘‘

(صحيح مسلم، الطهارة، باب فضل الوضو، حديث: 223)

ایمان کا تعلق انسان کے قول سے بھی ہے، ایمان کا ربط انسان کے فعل سے بھی ہے۔ ایمان کا واسطہ انسان کے خلق سے بھی ہے۔ ایمان کا علاقہ انسان کے مجموعی کردار سے بھی ہے۔ غرضیکہ جب ایک مسلمان بحیثیت انسان جب صاحب ایمان ہوجاتا ہے تو انسان کا ایمان سے تعلق تمام جہتوں سے ہوجاتا ہے، جملہ سمتوں سے ہوجاتا ہے، تمام نوعیتوں سے ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں یہ ایمان اور انسان دو لوگ لازم و ملزوم ٹھہرتے ہیں۔ انسان ایمان سے ہے اور ایمان انسان سے ہے۔ انسان کی پچان ایمان سے ہوتی ہے اور ایمان کی شناخت انسان سے ہوتی ہے۔ ہر علم والوں کے لئے ایک مجبوری ہے، وہ اپنے علم کے موضوع کو دیکھتے ہیں اور پھر پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے علم کے موضوع کے اندر ہی اندر رہیں باہر نہ جائیں تاکہ موضوع کی رعایت ہر صورت میں برقرار رہے۔ علم فقہ کے ائمہ اور ماہرین نے جب اس موضوع کو وضع کیا تو انہوں نے فعل المکلّف کو موضوع ٹھہرایا۔

مکلف کا وہ فعل جو اللہ کی عبادت کی غرض سے ادا کیا جائے اور وہ فعل جو بندے کے لئے فرض اور واجب ہے اس لئے انہوں نے قرآن کی کتاب الطہارت سے باب الوضوع، باب الغسل، باب التیمم اور دیگر ابواب کو لے لیا، فقہاء نے فعل مکلف کی ان چیزوں کے جاننے کو ایک حکم کا جاننا، ایک مسئلہ کا سمجھنا، قرار دیا ہے اور پھر یہی مسئلہ اپنے اجتماعی مفہوم میں مسائل بنتا ہے۔

اسلام کا تقاضا صرف جزوی نہیں بلکہ کلی طہارت ہے

ہم نے فقہی مسئلہ طہارت کو اسلام کا کلی مسئلہ طہارت سمجھ لیا، اسلام کا کل تصور طہارت اسے جان لیا، فقط علم فقہ سے تعلق کی بنا پر یہ جزوی مسئلہ طہارت ہے۔ یہ اسلام کاکلی مسئلہ طہارت ہرگز ہرگز نہیں۔ فقہی مسئلہ کے طور پر طہارت کا اہتمام فرض ہے۔ یہ اسلام کا کل تصور طہارت نہیں ہے بلکہ باوجود فرض ہونے کے یہ اسلام کے تصور طہارت کا ایک جزو ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ طہارت کو جسمانی پاکیزگی کے لئے لازم ٹھہراتا ہے اور اس طرح مال کی نظافت کے لئے بھی طہارت کو ضروری قرار دیتا ہے اور دلوں کی صفائی و نفاست کے لئے بھی طہارت کو اہمیت دیتا ہے، گھروں کی صفائی و ستھرائی اور دھلائی کے لئے بھی طہارت کے قیام کا حکم دیتا ہے۔ قیام طہارت کے لئے وہ اپنے انبیاء علیہم السلام سے عہد لیتا ہے۔ انسان کو اپنے کردار طہارت سے آراستہ کرنے کے لئے تاکیدی حکم دیتا ہے۔ پینے کے پانیوں کو ہمیشہ طاہر و طہور رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ طہارت کے مدمقابل حدث اور رجز میں ان سے الگ ہونے اور ان کو ترک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رجز، بت پرستی، ناپاکی کا سب سے بڑا مصدر ہے ان کے لئے اجتناب کامل کا حکم فاھجر کی صورت میں دیا ہے۔ وہ شخص جس کو اسلام کی بدولت طہارت قول، طہارت فعل، طہارت خلق، طہارت سیرت اور طہارت کردار کی نعمت میسر آجائے تو پھر وہ اپنے موالا کی طرف راغب رہتا ہے، اپنے رب کی طرف جھکا رہتا ہے، اس لئے کہ اس بندے نے اپنا تعارف متطھرین کا بنالیا ہے۔ پاکباز لوگوں کی صف میں وہ آگیا ہے، طہارت پسند طبقات میں آگیا ہے۔ طہارت کلی رکھنے والوں میں آگیا ہے۔ فرمانبرداروں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے، اطاعت گزاروں میں اس کا نام آنے لگا ہے، رب سے تعلق جوڑنے والوں سے اس کا ربط ہوگیا ہے اور یہ توابین اور متطھرین بندوں میں آگیا ہے، جنہیں رب ان کی ان دو خصلتوں کی وجہ سے محبوب بناکے بیٹھا ہے، وہ اپنے ان بندوں سے نہ صرف محبت کرتا ہے بلکہ وہ دنیا والوں کو بتاتا ہے اور ان کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے توابین اور متطھرین بندوں سے محبت کرتا ہوں اور اس کا اظہار یوں کرتا ہے:

اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ.

’’بے شک اﷲ بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘

(البقرة،2: 222)

  1. طہارت کی پہلی صورت۔۔ طہارت جسم

طہارت کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہمارا سارا جسم دھلا رہے۔ خواہ وہ جزوی طور پر وضو کی صورت میں دھلے یا کلی طور پر غسل کی صورت میں دھلے۔ اس جسم اور اس کے اعضاء پر ’’فاغسلوا‘‘ کا عمل جاری رہے تاکہ انسان کو طہارت کاملہ حاصل ہو اور وہ انسان متطھرین میں شمار ہوجائے۔ جسم اور اعضائے جسم کے دھلتے رہنے میں جہاں صحت کا قیام ہے وہاں حکم الہٰی کے مطابق طہارت کا اہتمام بھی ہے۔ صحت اور طہارت لازم ملزوم ہیں، صحت کا قیام طہارت سے ہے طہارت کا دوام و قیام درحقیقت صحت کا انتظام ہے۔

اس لئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

حَتّٰی يَطْهُرْنَ ج فَاِذَا تَطَهَّرْنَ

’’جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں اور جب وہ خوب پاک ہوجائیں‘‘۔

(البقرة، 2: 222)

طہارت یہ ہے کہ جسم کی ہر نجاست اور غلاظت گندگی و ناپاکی کو دور کیا جائے۔ جسم کو طاہر متطاہر بنایا جائے، جسم کو خوب پاک کیا جائے پھر پاک رب کی بندگی اور عبادت کی جائے۔ ایسی طہارت و عبادت ہی انسانوں کو تبدیل کرے گی۔ ایسی طہارت و عبادت ہی انسانوں پر اپنا اثر ظاہر کرے گی اور ایسی طہارت و عبادت ہی نتائج دے گی۔

  1. طہارت کی دوسری صورت۔۔ طہارت لباس

اس کے بعد دوسرا حکم یہ ہے:

وَ ثِيَابَکَ فَطَهِّرْ

’’اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں‘‘۔

(المدثر: 4)

جسم کی پاکیزگی کے بعد اس جسم پر پہنایا جانے والا لباس پاک صاف ہو، اس میں کسی قسم کی نجاست نہ ہو، اس پر کسی نوعیت کی غلاظت نہ ہو اور نہ ہی اس کے اثرات ہوں، وہ کپڑا صاف ہو، دھلا ہوا ہو، اس میں کسی قسم کا تعفن نہ ہو، اس میں کسی طرح کی بدبو نہ ہو، اس میں کوئی عیب دار داغ نہ ہو، ان کپڑوں میں مکمل ظاہری اور باطنی نفاست اور طہارت ہو، وہ گرد و غبار سے آلودہ نہ ہوں، وہ مٹی اور آلودگی سے مملو نہ ہوں۔ وہ نماز میں ساتھ کھڑے شخص کی طبیعت میں بوجھ پیدا نہ کریں۔ ان سے خوشبو تو آئے مگر بدبو نہ آئے۔ وہ انسان کے جسم کو ڈھانپیں مگر اسے ننگا نہ کریں۔ وہ ساتر ہوں اور شرعی ستر پوری کریں، جسم کی ناپاکی اور کپڑوں کی ناپاکی یہ دونوں رکاوٹ ہیں۔ ان ناپاکیوں کی وجہ سے اس پاک ذات کے ساتھ وصل پیدا نہیں ہوسکتا، اس سے ملنے کے لئے اس کے وصل کے لئے اور اس کی دیدو ملاقات کے لئے بندوں کو ان صفات کو اختیار کرنے کا حکم یوں دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

صِبْغَةَ اﷲِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ صِبْغَةً.

’’(کہہ دو ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے۔‘‘

(البقرة: 138)

وہ رب شان سبحانیت کا مالک ہے۔ وہ رب پاک ہے اور اس پاک ذات سے ملنے کے لئے بندے کو بھی پاک ہونا ہے۔ بندے کو بھی طہارت احسن کو اختیار کرنا ہے۔ ثیاب احسن کو اپنانا ہے۔ صورت کو احسن بنانا ہے، سیرت کو بھی احسن بنانا ہے، لباس کو طہارت احسن کی صورت دینا ہے اور خود پر اس کی صفات احسن کا رنگ چڑھانا ہے۔ گویا اس کی ملاقات و دید اور اس کی زیارت و حاضری کی شرائط میں سے ایک شرط طہارت ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی رہ جائے اور اس میں کوئی خطاء ہوجائے اور یہ طہارت ناقص رہ جائے اور اس طہارت میں کوئی کجی آجائے تو اصل فرض کی ادائیگی نہ ہوسکے گی اور اس سے آگے اصل الاصول رب کی معرفت میسر نہ آسکے گی اور اس کی قربت سے آشنائی نہ مل سکے گی۔

  1. طہارت کی تیسری صورت۔۔ تطہیر قلب

طہارت کی تیسری صورت یہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَنْ يُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ ط لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ ج وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ.

’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ (ہی) نہیں فرمایا۔ ان کے لیے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘

(المائدة: 41)

جب انسان نے جسم کی طہارت کا اہتمام کرلیا، اس پر پاک و صاف کپڑے سجالئے اور اس جسم کو وضو اور غسل کے بعد عمدہ کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔ اب ایسا شخص داخل صلوۃ ہوتا ہے۔ اس نے مقدور بھر ظاہری طہارت کا اہتمام کرلیا ہے۔ اپنے ظاہر کو موافق حکم شریعت کرلیا ہے۔ ظاہری نجاستوں اور غلاظتوں کو، جسم اور لباس سے دور کرلیا ہے۔ اب اس ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطن کی طہارت و پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اب چہرے کی صفائی کے ساتھ ساتھ دل کی صفائی بھی لازمی ہے کیونکہ دل تو اصل ایمان ہے۔ اقرار باللسان، ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک تصدیق بالقلب کا عمل جاری نہ ہوجائے تو ایمان، ایمان نہیں بنتا۔

فقط ظاہر کی طہارت کافی نہیں ہے بلکہ باطن کی طہارت بھی لازمی ہے۔۔ باطن کی طہارت کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کوئی دیدہ زیب عمارت بنائے، اس عمارت کی تعمیر کرائے، اب اس عمارت کا ایک ظاہر ہے اور اس عمارت کا ایک باطن ہے۔ ظاہر ہر کسی کو نظر آتا ہے اور باطن اسی کو نظر آتا ہے جو اس عمارت میں رہتا ہے اور جو اس میں آتا جاتا ہے۔ اگر اندر سے عمارت کھردری ہو اور باطن سے کام نہ ہوا ہو۔ فرش ابھی بنے نہ ہوں، پلستر ابھی نہ ہوئے ہوں، رنگ و روغن ابھی نہ ہوا ہو تو اس عمارت میں کوئی بسنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ اس کی طبیعت چاہتی ہے جس طرح عمارت باہر سے بے انتہا خوبصورت ہے اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت، اندر سے ہو۔ باہر کو اوروں نے بار بار دیکھنا ہے اور اندر کو اندر والے نے ہی دیکھنا ہے۔ اندر اندھیرا ہوجائے تو انسان روشنی کا متلاشی ہوجاتا ہے۔ گویا اندر کی عمارت بنی نہ ہو اور اس عمارت میں روشنی نہ ہو۔ انسان کا اس عمارت سے تعلق خاطر قائم نہیں ہوتا۔

دل کی روحانی خرابیاں

اسی طرح دل میں اندھیرا ہو اور دل کی تعمیر و تطہیر نہ ہوئی ہو، دل ظلمت کدہ ہو، دل ناپاک ہو، دل میں نجاست ہو، دل میں غلاظت ہو، دل میں پلیدی ہو، دل میں ناپاکی ہو، دل میں گندگی ہو، دل میں نفرت ہو، دل میں عداوت ہو، دل میں کینہ ہو، دل میں بغض ہو، دل میں منافقت ہو، دل میں لالچ ہو، دل میں جھوٹ ہو، دل میں تکبر ہو، دل میں نخوت ہو، دل میں حسد ہو، دل میں گناہ ہو، دل میں ظلم ہو، دل میں شر ہو، دل میں فتنہ ہو، دل میں فساد ہو، دل میں دشمنی ہو، دل میں غیبت ہو، دل میں خیانت ہو، دل میں ناانصافی ہو، دل میں وعدہ خلافی ہو، دل میں معصیت ہو، دل میں افتراق ہو، دل میں انتشار ہو، دل میں تعصب ہو، دل میں بدگمانی ہو، دل میں کسی کے لئے نقصان کا ارادہ ہو، دل میں کسی کے لئے انتقام ہو، دل میں کسی کے لئے زیادتی کا ارادہ ہو، دل میں نافرمانی ہو، دل میں غفلت ہو، دل میں اللہ سے دوری ہو۔ غرضیکہ دل میں ہر ہرشر کی صورت ہو، دل میں ہر فساد کی جہت ہو، دل میں ہر ہر فتنے کی نوعیت ہو، حتی کہ دل میں معصیت کا غلبہ ہو اور دل شیطانی وساوش کی آماجگاہ ہو تو اچھی طرح یہ بات سمجھ لیں ایسا دل بھی ناپاک ہوجاتا ہے۔ اس دل کو بھی طہارت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس دل کو بھی دھونا پڑتا ہے۔ اس دل کو بھی ظاہری اعضاء کی طرح پاک کرنا پڑتا ہے۔ ظاہری طہارت کی طرح باطنی طہارت کو بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ظاہری طہارت عبادت کی عمارت کا ظاہر اور باطنی طہارت عبادت کی عمارت کا باطن ہے۔ عبادت میں جمال اور کمال کلی طہارت سے میسر آتا ہے۔

دلوں کی ناپاکیاں اور بیماریاں

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دل ناپاک کیسے ہوتے ہیں کون سی چیزیں دلوں کو پلید کرتی ہیں، کون سے امراض دلوں کی طہارت ختم کرتے ہیں، کون سی بیماریاں دلوں کی پاکیزگی کا خاتمہ کرتی ہیں۔ اس حوالے سے قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ انسانی دلوں کو کچھ امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ان امراض کی بناء پر ان دلوں میں طہارت ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جوں جوں دل کا مرض بڑھتا ہے توں توں طہارت رفتہ رفتہ ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ دلوں کو بھی ناپاکی کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَتَرَی الَّذِيْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ

’’سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان(یہود و نصاریٰ) میں (شامل ہونے کے لیے) دوڑتے ہیں۔‘‘

(المائدة: 52)

یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ’’فی قلوبہم مرض‘‘ دلوں کو مرض لاحق ہوتا ہے۔ جب انسانی دل کو کوئی باطنی مرض لگتا ہے تو وہ دل ناپاک ہوجاتا ہے۔ یہود و نصاریٰ، غیر مسلموں کو جو مرض اسلام کی بابت لگا وہ تعصب کا مرض تھا۔ وہ اپنی خاندانی عصبیت کا مرض تھا۔ انہوں نے منصب نبوت و رسالت کو از خود اپنے خاندان بنی اسرائیل کے لئے مختص کرلیا تھا۔ خدا کی قدرت اور مشیت پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ جب ایسا نہ ہوا تو وہ تعصب کا مرض مزید بڑھا، اس نے دل کو ناپاک کیا جس کی بناء پر یہودو نصاریٰ نے حقیقت کا ہی انکار کردیا۔ اسی طرح دل کے امراض کا تذکرہ کرتے ہوئے سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا:

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِهِمْ.

’’اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کی خباثت (کفر و نفاق) پر مزید پلیدی (اور خباثت) بڑھا دی۔‘‘

(التوبة: 125)

دل کی بیماری کا دوسرے اعضاء جسم پر اثر

دلوں کوجب کوئی مرض سوء لاحق ہوتا ہے اگر اس کی اصلاح نہ کی جائے تو وہ مرض بڑھتا رہتا ہے۔ جیسے انسان کو کوئی ظاہری مرض لگتا ہے اگر اس کا علاج نہ کرائے اور اس بیماری کے خاتمے کی کوئی دوا اور تدبیر نہ کرے تو وہ مرض بڑھتا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح دل کا باطنی مرض بھی بغیر اصلاح اور بغیر علاج کے بڑھتا رہتا ہے۔ حتی کہ وہ مرض باطنی دل کو مکمل اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ وہ مرض اس قدر بڑھتا ہے کہ دل کو اندھا کردیتا ہے۔ دل کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور دل کو کچھ سمجھائی نہیں دیتا اور دل کی بینائی اور روشنائی کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور دل کی ادراکی طاقت دم توڑ دیتی ہے۔اب اس دل پر اس مرض کا بسیرا ہوتا ہے اور اسی مرض کا راج ہوتا ہے، وہی مرض اس میں مزید پرورش پاتا ہے اور اسی کی اس میں پھر تیز تر نمو ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ہدایت سے نتیجتاً خود کو ہی دور کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی دلوں کے حوالے سے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

خَتَمَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ ط وَعَلٰی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ.

’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے۔‘‘

(البقرة: 7)

دل بند ہوتے ہیں تو کان اور آنکھیں بھی بندہوجاتی ہیں۔ دل نہیں سمجھتا تو آنکھ بھی نہیں دیکھتی اور کان بھی نہیں سنتا۔ دل کی آمادگی پر آنکھ بھی دیکھتی ہے اور کان بھی سنتا ہے۔ جہاں دل لگتا ہے وہاں آنکھیں یکسو ہوجاتی ہیں اور پورا جسم ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے۔ اس لئے انسانی جسم میں دل کی حیثیت ایک حاکم کی ہے جو انسان پر ہمہ وقت اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔ عقل و فکر پر اسی کا غلبہ ہوتا ہے۔ انسان کے رویوں پر اسی کا راج ہوتا ہے اور انسان کی عادتوں میں اسی کا تغلب ہوتا ہے۔ جب دل کو مختلف امراض باطنی لگتے رہتے ہیں جو انسان کی طہارت کو ختم کرتے ہیں جو انسان کی دل کی پاکیزگی کو متاثر کرتے ہیں تو پھر یہی دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ قرآن اس کا ذکر یوں کرتا ہے:

وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.

’’بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں جو نہ حق کو سمجھتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں۔‘‘

(الحج: 46)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016

تبصرہ