14اگست 1947ء۔۔ یوم پاکستان اور آج کا پاکستان

ہانیہ ملک

پاکستان 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کا وجود میں آنا ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ قدرت کا انتخاب تھا۔ اس عظیم ریاست کو وجود میں لانے کے لیے سال کا سب سے بہترین مہینہ اور راتوں میں سب سے بہترین رات کو منتخب کیا گیا اور وہ رات رمضان المبارک کی ستایئسوں رات تھی کیسے نہ یہ انتخاب ہوتا کہ دنیا میں دو ہی تو ریاستیں ایسی تھیںجو کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی ایک مدینہ پاک کی ریاست اور ایک ریاست پاکستان ۔کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ یہ خطہ اپنے پیچھے بے شمار قربانیوں اور انتھک جدوجہد کی پوری ایک داستان رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کی جدوجہد 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہی شروع ہو چکی تھی ۔یہ ایک مجموعی جدوجہد تھی جو قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں لڑی گئی جس میں اس دور کے ر وحانی خانوادے اور دینی قائدین بھی شامل تھے وہاں خواتین نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بیشمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والا یہ ملک کسی بھی پہلو سے علامہ اقبال اور قائداعظم کے خوابوں تعبیر نظر نہیں آتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرمایہ داروں اور لٹیروں نے اس ملک کی عوام کو دو قسم کے طبقات میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ایک طرف وہ طاقتور طبقہ ہے جس کے پاس سیاست،اقتدار،دولت،اور طاقت بے انتہا ہے۔

یہاں سب کچھ طاقتور کے پاس ہے سیاست بھی طاقتور کے پاس ہے،جمہوریت بھی طاقتور کے پاس ہے،قانون بھی طاقتور کے پاس ہے اور عدالت بھی طاقتور کے پاس ہے۔عزت بھی طاقتور کے پاس ہے ،خوشحالی بھی طاقتور کے پاس ہے،راحت و آرام اور چین و سکون بھی طاقتور کے پاس ہے، سیکورٹی بھی طاقتور کے پاس ،الیکشن بھی طاقتور کے پاس اور اقتدار بھی طاقتور کے پاس ہے اور ایوان بھی طاقتور کے پاس۔ اور طاقتور طبقہ اس ملک میں سرمایہ داروں ،وڈیروں اور حکمرانوں کا ہے۔

اور دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اس ملک کے غریبوں ،مقہوروں اور مظلوموں اور ناداروں کا ہے جو کم و بیش18 کروڑ عوام پر مشتمل ہے۔جو فقروفاقہ ، غربت و مہنگائی ، خود سوزی و خود کشی،عزت فروشی، مایوسی و محرومی اور بیروزگاری کی زندگی گزارنے پرمجبور کر دئیے گئے ہیں۔

ملک کے تمام ادارے اس طاقتور مافیا کے قبضہ میں ہیں۔عدالتیں اور ملکی سلامتی کے ادارے ان کے گھر کی لونڈی بن چکے ہیں۔ جس ملک کی عدالتیں آزادانہ انصاف نہ کر سکیں اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ وطن عزیز میں دن دیہاڑے چودہ بے گناہ لوگوں کو ماڈل ٹاون میں شہید کیا جائے اور 100سے زیادہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا جائے جہاںقصور میں معصوم بچوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے۔غیرت کے نام پر خواتین کا قتل عام ہو رہا ہومگر پھر بھی عدالتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن کو اس طاقتور طبقہ نے اس جگہ پر پہنچا دیا ہے جہاں ایک وقت کی روٹی تو مہنگی ہے مگر انسانیت کا خون سستا ہے۔ دہشتگردی ، ظلم و جبر ، اورحقوق کی عدم دستیابی کو اس ظالم طبقہ نے جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ ان سارے حالات کی وجہ صرف اور صرف ہمارا موجودہ انتخابی نظام ہے۔ہم نے عوام کو حکمرانی دینے کی بجائے اشرافیہ اور طاقتور طبقات کو حکمران بنا دیا۔ یاد رکھ لیں جب جاگیردار، سرمایہ دار ،صنعت کار،بڑا تاجر اور مالدار طاقتور طبقے سیاسی لیڈر بن کر حکمران بن جائیں تو کسی اور کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔

پہلے زمانے میں فلاسفر کہا کرتے تھے کہ یا حکومت کرو یا تجارت کرو۔ جب صنعت کار،تاجر،جاگیردار حکمران بھی بن جاتا ہے تو وہ اپنے مفاد کے لئے جو کچھ چاہے بدل دے۔ جب وہ حکومت و اقتدار اور اختیار کے بل بوتے پر دولت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے تو دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً کروڑوں محروم لوگ غربت کی زندگی میں جل جل کر مر جاتے ہیں۔

قائد اعظم کا وعدہ تھا کہ ایسی ریاست بنائیں گے جس میں عوام کی حکومت ہو گی جس میں عوام طاقتور ہوںگے۔ افسوس ہم نے وطن عزیز کو طاقتور اور اشرافیہ کی اسٹیٹ بنا دیا اور خود غلام بن کے رہ گئے۔ہمارے پاس ایک مکمل آئین 1973ء کے آئین کی شکل میں موجود ہے۔پاکستانی قوم ایک باصلاحیت قوم ہے۔ سرزمین پاکستان قدرتی خزانوں اور صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ مگرکرپٹ اور خائن قیادتیں جو اس ملک کے فرسودہ نظام کو نہ صرف سپورٹ کرتی ہیں بلکہ اس نظام کو جمہوریت کا نام دیتے ہوئے اس کی حفاظت کے لئے بھی کمربستہ ہیں۔

اس نظام کے تحت غریب اور مظلوم اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور پڑھا لکھا طبقہ ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنٹسٹ ، ٹیکنالوجسٹ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور پلٹ کر واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ لوگ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے اعتبار سے انٹرنیشنل انڈیکس میںدوسرے بڑے خطرناک ملک کے طور پر شامل ہو چکا ہے۔ اس نظام کو سمندر برد کرنا ہو گا کہ جس کے تحت ملکی سا لمیت بھی خطرے میں ہے۔ ملک میں کرپشن کا بازار گرم ہے حکمران آف شور کمپنیوں کی شکل میں ملکی دولت باہر کے ممالک میں منتقل کر کے بیرون ملک کھربوں کی جائیدادیں بنا رہے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر یہاں سیاسی آمریت ہی پلتی رہی۔ اور نہ ہی موجودہ نظام کے تحت پلنے والا یہ معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا حقدار ہے۔ جس سوسائٹی میں ایسی تقسیم ہو جائے کہ ایک طرف لوگ کھربوں کے مالک ہو جائیں اور ان کی دولت کا کوئی شمار نہ رہے۔اور ان کے کتے ،گھوڑے ، خچر اور اونٹ بھی لاکھوں انسانوں کے اخراجات پر پل رہے ہوں جبکہ دوسری طرف غریب کے بچے کو روزگار نہ ملے ،علاج کی سہولت نہ ملے۔ نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے خودکشیاں کر لیں وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں کہلاتا۔کیا قائداعظم نے پاکستان اس لئے بنایا تھا۔ موجودہ پاکستان کو دیکھ کر ان کی روح تڑپتی ہو گی۔

تقدیر نے کیا اس لئے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

قائد اعظم نے جو نشیمن بنا کے دیا تھا ہم اس نشیمن کو آگ لگا رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان بنا تھا اللہ کی مدد سے اور انشاء اللہ اسے قائم رہنا ہے وہ وقت دور نہیں کہ اس ظالمانہ اور فرسودہ نظام کا خاتمہ ہو گا اور اس نظام کے سپورٹراپنے عبرت ناک انجام تک جلد پہنچیں گے ۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سیاست نہیں ریاست کو بچانے کے لئے اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔

میں یہ یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ موجودہ دور میں جہاں ہر سیاسی پارٹی اپنی سیاست کو بچانے میں سرگرم نظر آتی ہے وہاں واحدجماعت ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ ہے جو ریاست کو بچانے کی بات کرتی ہے۔ جس کا مقصد اس فرسودہ ظالمانہ نظام کا خاتمہ ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری دلیل اور برہان کی طاقت سے بے زبانوں کو زبان دینے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اور عام آدمی کے حقوق کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ان کی کوششیں رنگ لائیں گی اور ملک میں انقلاب آئے گا۔

یہ قافلہ اب رکنے اور تھمنے والا نہیں۔ گو کہ اس قافلے پر سٹیٹس کو کی حامی قوتیں چاروں اطراف سے حملہ آور ہو رہی ہیں مگر یہ قوتیںاس طاقت کے آگے ٹوٹیں گی جس کا مقصد اس ریاست پاکستان کو بچانا ہے اور اسے صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔

ان شاء اللہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والا یہ ملک قائم و دائم رہے گا اور اس ظالمانہ نظام کا پھاٹک ٹوٹے گا اور قائد اعظم کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2016

تبصرہ