اسلام کا تصورِ تربیت

مرتبہ: ملکہ صبا

یہ عام سی بات ہے کہ مسلمان اسلام کے بارے میں جانے اور اْس کے مطابق تربیت حاصل کرے مگر افسوس کہ عملی دْنیا میں یہ چیز بھی بہت کم نظر آتی ہے ۔ بعض لوگ اسلامی تربیت کا محض یہ مفہوم لیتے ہیں کہ عبادات کی حد تک دینداری اختیار کی جائے اور نماز روزہ کی پابندی کر لی جائے ۔ حالانکہ اسلام کا تصورِ تربیت اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔ یہ ایک جامع ترین تصور کا نام ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں اور گوشوں پر محیط ہے اور انسانی زندگی میں جو کچھ پیش آسکتا ہے ، اْس کے بارے میں ایک معیّن و مخصوص رویّہ رکھتا ہے ۔ خدا کا تصوّْر، کائنات، خدا اور کائنات سے انسان کا تعلق اور ایسے ہی موضوعات کے بارے میں اسلام اپنا ایک نقطہ نظر رکھتا ہے ۔ چنانچہ ضرورت ایسا نظامِ تعلیم اختیار کرنے کی ہے جو انسانوں کو اس تصور میں ڈھال دے اور جو لوگ اس کے تحت تربیت حاصل کریں، وہ اپنے حواس، تصور اور کردار میں انہی نظریات کے پابند ہوں۔

ہم اپنی بات کا آغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ کیا تعلیم اس بات کا نام ہے کہ کچھ معلومات طالب علموں کو فراہم کر دی جائیں، یا یہ کسی اور چیز کا نام ہے ؟ تو پہلی بات یہ جان لیجیے کہ ہم دو باتوں کے حاجت مند ہیں: ایک تعلیم، دوسری تربیت۔ اور سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نظامِ تربیت اور اسلامی نظامِ تعلیم کیسے برپا ہو۔ کیونکہ عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں ان دو چیزوں کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے تعلیم کے معاملے میں ہم نے مغرب کی پیروی کی ہے اور وہی انداز اپنائے ہیں جو وہاں کے تعلیمی اداروں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ تربیت کو ہم نے سرے سے نظرانداز کیا ہے اور اگر کہیں اس کی رَمق موجود بھی ہے تو وہ اسلامی تربیت نہیں ہے ۔

اسلامی تربیت وعظ و تقریر کا نام نہیں!

جب ہم اسلامی تربیت کی بات کرتے ہیں تو بعض لوگوں کا ذہن وعظ و تقریر کی جانب چلا جاتا ہے حالانکہ اسلامی تربیت کا مدار وعظ اور تقریر نہیں ہے ۔ اسلامی تربیت کا پہلا وسیلہ معلّم کا کردار ہے اور نصیحت کا عمل کردار کے بعد شروع ہونا چاہیے ۔ یعنی بچوں کو جن اْمور کی تربیت دینا مطلوب ہے ، معلِّم اْن کا عملی نمونہ پیش کرے ۔ بالفاظِ دیگر اگر ہم اپنی نسلوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے مسلمان معلِّم بننا چاہیے ۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پرائمری اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک تمام تعلیمی اِداروں میں اسلامی اسپرٹ جاری و ساری ہو اور سارے ماحول پر اسی کا غلبہ و تسلّْط ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اساتذہ کرام اسلام کو اپنی زندگیوں پر نافذ کریں۔ پھر طالب علموں اور نوجوانوں کے دل خود بخود ان تعلیمات و اعمال کی طرف کھنچنے لگیں گے ۔ مختصر یہ کہ ہر مسلمان معلِّم داعی ہے ۔ اس کا فرض ہے وہ اسلام کی دعوت کلاس روم کے اندر پیش کرتا رہے ۔ صرف نصیحت سے نہیں عملی کردار سے ۔ معلِّم کا فرض ہے کہ وہ اپنے عمل و کردار سے دائرے کا مرکز بن جائے اور طالب علم اس کے گرد گھومتے اور متاثر ہوتے رہیں۔ وہ اپنے عمل سے جس چیز کو پیش کرے ، طلبہ اس کو اختیار کر لیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب طالب علم معلِّم کو شعائرِ اسلام کی پابندی کرتے ہوئے دیکھیں گے ، اسے اسلامی اخلاق کا نمونہ پائیں گے تو خود بخود جان لیں گے کہ اسلام کیا ہے اور اس کی خوبیاں کیا ہیں؟

تعلیم کا مقصد۔ عبْودِیّتِ الٰہی:

اسلام میں تعلیم اِس بات کا نام نہیں کہ چند معلومات طالب علموں کے ذہن میں بھر دی جائیں اور بس۔ اسلام میں ہر چیز ایک مقصد کی طرف جاتی ہے ۔ یہاں علم برائے علم کا کوئی تصور نہیں۔ چنانچہ اسلام کی نظروں میں علم انسانی زندگی کا ایک جزو ہے اور انسانی زندگی کا مقصد از رْوے قرآن اللہ تعالیٰ کی عبادت قرار دیا گیا ہے ، اس لیے اسلام میں علم وہی مستحسن ہے جو انسان کو خالقِ کائنات کا سچا و پکا عبادت گزار بنا دے لیکن عبادت چند اسلامی شعار اور اقوال کا نام نہیں ہے ۔ بلاشبہ یہ دینی مراسم زندگی کا جزو ہیں مگر عبادت اپنے اندر ایک جامع مفہوم رکھتی ہے اور پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اسی قسم کی عبادت کا مفہوم سمجھانے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کی عبادت، اس کا جینا، اس کا مرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے ۔

عبادت کا یہ وسیع تصور یوں پورا ہو گا کہ انسان پوری زندگی میں اسلام کے اصولوں کی پابندی کرے ۔ لہٰذا تعلیم کا مقصد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسا انسان تیار کرے جو اسلام کے اس مفہوم کے مطابق عبادت گزار ہو اور اس کا رکوع و سجود ہی نہیں۔ بلکہ موت و حیات کا مقصد محض اللہ کی رضا جوئی قرار پائے ۔ یہ امر اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم پہلے کچھ سوالات کے جوابات حاصل کر لیں۔

چند سوالات

اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کیا چیز ہے ؟ کیا یہ جانور ہے یا حیوان، فرشتہ ہے یا مخلوق؟ اگرچہ بظاہر اس کا جواب بڑا آسان ہے مگر دَورِ حاضر کے جاہلی نظاموں نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈارون نے اس کا جواب یہ دیا کہ انسان دراصل حیوان ہے اور اسی نظریے کو موجودہ جاہلیت نے من و عن قبول کر لیا۔ ظاہر ہے اگر انسان کا تعلق حیوانی نسل سے ہے تو پھر اسے کسی عقیدے ، اخلاق یا روحانی اَقدار کا پابند ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ چنانچہ آج جب آپ انسان کو دین، اخلاق اور اعلیٰ اَقدار سے محروم دیکھتے ہیں تو اس کا سبب یہی بنیادی تصور ہے کہ انسان حیوان ہے ۔ چنانچہ اسلامی نقطہ نظر سے مذکورہ سوال کا جواب دینا بہت ضروری ہے اور بے حد اہم بھی۔

دوسرا سوال ہمارے پیشِ نظر یہ ہے کہ کائنات کے اندر انسان کا کیا کردار ہے اور اسے کون سے فرائض انجام دینے ہیں؟ کیا اس کا کام محض یہ ہے کہ کچھ فائدے حاصل کرے ، کچھ چیزوں سے لذت اندوز ہو؟ یا اس کا صرف ایک ہی فریضہ ہے کہ دنیا کو آباد کرے یا تھوڑے عرصے کے لیے جیے اور پھر ختم ہو جائے ؟ اس سوال کا جواب بھی پہلے سوال سے کم اہم نہیں اور دراصل یہی جواب انسان کے اْس طریقِ کار کا تعین کرے گا جو دنیا میں اسے انجام دینا ہے ۔

بدقسمتی سے اگر پہلے سوال کا جواب جدید جاہلیت نے یہ دیا کہ انسان حیوان ہے تو دوسرے کا جواب یہ دیا کہ انسان خوب جیے ، جی بھر کر زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اس امر کی ہرگز پرواہ کرے کہ اسے کہاں جانا ہے اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہونا ہے ؟ چنانچہ آج تعلیمی اداروں میں یہی تعلیم دی جارہی ہے کہ انسان محض لذت و لطف کے لیے پیدا ہوا ہے اور بس۔ نتیجہ یہ کہ اس تعلیم کا پروردہ انسان مادّی مفادات حاصل کرنا اور بے جا طریقوں سے لذّت اندوزی حاصل کرنا انسانیت کی معراج سمجھتا ہے اور یہی اس کے نزدیک زندگی کا مقصد ہے ۔ آج مغرب کے تمام تدریسی ادارے انسان کو محض دو مقاصد حاصل کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ مادی فوائد اور حصولِ لذّت جس کے زیرِ اثر سارا مغرب لذت اندوزی اور حصولِ منفعت میں غرق ہے اور اخلاقی و روحانی قدروں کا وہاں دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔

سوالوں کے جوابات

آیئے دیکھیں کہ اسلام ان دونوں سوالوں کا کیا جواب دیتا ہے کہ اسی جواب پر اسلامی تعلیم اور تربیت کا دار و مدار ہے ۔

قرآن کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان ہرگز حیوان نہیں اور نہ کبھی تھا اور اسلام کا انسان ڈارون کے انسان سے بالکل مختلف و ممتاز شے ہے ۔ پہلے ہی دن اسے بطورِ انسان تخلیق کیا گیا جس کا علم خلیفۃ فی الارض کے قرآنی فیصلے سے ہوتا ہے ، یعنی انسان کا مقصد خلافتِ الٰہی قرار پایا۔ اسے زمین پر اللہ کا نائب بنا کر بھیجا گیا اور فرض یہ سونپا گیا کہ وہ اللہ کی منشا کو اختیار اور نافذ کرے گا۔ بلاشبہ یہ نظریہ حیات موجودہ جاہلی تصورِ زندگی سے یکسر مختلف ہے جس پر آج کی دنیا عمل پیرا ہے ۔

معلومات کو پیش کرنے کا اسلامی و غیراسلامی انداز:

بادی النظر میں یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم تو نام ہے فزکس، کیمسٹری، میڈیکل اور انجینئرنگ کا پھر اسلامی نظریات کی مطابقت ان سے کیسے ہو سکے گی۔ کیا اسلامی اداروں میں ان کی صورت اور معلومات مختلف ہو جائیں گی؟ تو یہ بات سمجھ لیں کہ اسلامی طرزِ تدریس میں ان مضامین کی معلومات مختلف نہیں ہوں گی بلکہ ان کے پیش کرنے کا انداز مختلف ہو گا۔ مثال کے طور پر شاید آپ کو اندازہ نہ ہو کہ مغرب کا طرزِ تعلیم بت پرستی پر استوار ہے ۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو متذکرہ علوم کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔ آپ کو بار بار اس بات کا اعادہ نظر آئے گا کہ نیچر یا فطرت ہی خالق ہے ۔ افسوس کہ اسلامی ممالک میں بھی اسی مشرکانہ اور بت پرستانہ نظریے کو اختیار کر لیا گیا ہے اور ہم اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہوئے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے کہ نیچر کے قواعد اَٹل ہیں اور یہ بدل نہیں سکتے ۔ غرض ہم طلبہ کو نیچرل لاز (قوانینِ فطرت) کی تعلیم ہی دیتے ہیں اور اپنے عمل اور قول سے نیچر یا فطرت کو خدا اور خالق بنا لیتے ہیں اور تمام سائنسی اصول اور کْلّیے اسی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔

یہ طرزِ عمل ایک مسلمان استاد کے شایانِ شان نہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اللہ تعالیٰ کو خالق و رب العالمین نہیں مانتا۔ مَیں یہاں پر دو سائنسدانوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں، ڈارون اور مشہور ماہرِ چشم ابن الہیشم کی۔ ڈارون اپنے نظریات کی بنیاد فطرت پر رکھتا ہے اور خالقِ فطرت کو بالکل فراموش کر دیتا ہے جبکہ ابن الہیشم اپنے خیالات و نظریات کی تشریح کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتا ہے اور خالقِ اکبر کی حمد و ثنا کرتا ہے ۔ جاہل عالم اور مسلمان عالم کے درمیان یہی فرق ہے ۔ دونوں کی معلومات میں کوئی فرق نہیں۔ مگر معلومات کو پیش کرنے کا اندازہ کلیۃً مختلف ہے ۔ علمی معلومات میں کوئی تغیر نہیں آیا کرتا، نہ ہمارے ہاں، نہ ان کے ہاں مگر موقف دونوں کا الگ الگ ہوتا ہے ۔

بالکل یہی مثال تعلیم پر لاگو ہوتی ہے چنانچہ جب ہم موجودہ تعلیم کو اسلامی تعلیم میں بدلنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم کیمسٹری، فزکس وغیرہ میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ بت پرستانہ رویے ترک کر کے اس کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو طالب علم سارا دن کلاس روم اور لیبارٹریوں کے اندر ’’نیچر ہی خالق ہے ، نیچر کے قوانین اٹل ہیں‘‘ قسم کی باتیں سنتا رہتا ہے اور اس کے کانوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صنّاعی و قوّت کی بات نہیں کی جاتی، اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اخلاق، اَقدار یا اعلیٰ اصولوں کا حامل بنے گا عبث اور فضول ہے ۔ نیچر ایک ایسا ’’خدا‘‘ ہے جس کے سامنے کوئی عقیدہ ہے نہ اْصول۔ اس کے برعکس جو طالب علم دورانِ تعلیم یہ پڑھتا رہے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی نے کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ وہی ساری مخلوقات کا مالک، رازق اور رہنما ہے ، وہ اپنے اندر دینی روح پیدا ہوتی ہوئی محسوس کرے گا اور اللہ سے اس کا تعلق گہرا اور محبت مضبوط ہوتی جائے گی۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2016

تبصرہ