15 ویں صدی ہجری کے مجدد

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

بلا شبہ مرور ِاوقات اور تغیراتِ حالات ہر دور میں تازہ تحدیات و چیلنجز کو جنم دیتے ہیں اورتہذیب و ثقافت، رہن سہن، عادات و اطوار کو ماضی سے یکسر بدل دیتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ زندگی جمود اور تعطل کا نام نہیں بلکہ مسلسل تحرک اور تغیر و تبدل کا نام ہے۔ چنانچہ تغیرات زمانہ اور اِنقلاباتِ احوال، زندہ اور بیدار قوموں کیلیے تحریک و ترغیب کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اور اُس زمانہ کی بلند پایہ اور استقامت والی شخصیات کے دامن و باطن میں ان تازہ تغیرات کا مقابلہ کرنے کیلیے ایک تازہ جستجو اور ماحول پیدا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اس کی ترجمانی یوں کرتے ہیں۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان

دور حاضر کی ہیئت و صورتحال کا اگر بنظر دقیق جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح اور آشکار ہوجاتی ہے کہ جدید ذہنی و فکری تغیرات نے ثقافتی و اخلاقی اور فکری معیارات کو مکمل طور پر مسخ کر دیا ہے۔ دین متین کی تعلیمات پر غبارِتشکیک کے گہرے بادلوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ بلکہ بعض لادینی اور سیکولر طبقات یہ تصور دینے میں کوشاں نظر آتے ہیں کہ دین اسلام اس زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا متحمل نہیں ہے یہ تو آج سے چودہ سو سال پہلے کے زمانے کے لیے دین آیا تھا۔ ان کا یہ تصور در حقیقت ان کی ذہنی و فکری خلش اور لادینیت ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ دین اسلام تاقیامِ قیامت انسانوں کی رشدو ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی کم عقل انسان کو سمجھ نہ آئے تو یہ اس کی عقل کا مسئلہ ہے نہ کہ دین اسلام میں کوئی نقص اور کمزوری ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ انسانی عقل کا دائرہ محدود ہے اس کی فکر بھی نقص کا شکار رہتی ہے۔

اگر تاریخ انسانیت پر مدبرانہ اور گہری نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ گردش زمانہ نے ایک طرف تو ارتقاء انسانیت کے ساتھ ساتھ نت نئے حالات و ظروف پیش کیے ہیں اور نئے نئے چیلنجز سامنے لائے ہیں۔ تو دوسری طرف ان حالات و واقعات کا سامنا کرنے کے لیے اور ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مستقل اور پائیدار نظام وضع کر رکھا ہے جس پر مجددین کا ظہور ہوتا ہے اور وہ اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔

مجددینِ دین و ملت اسوہ انبیا ء علیہم السلام پر ظہور پذیر ہوتے ہیں اور اپنے زمانہ کے تقاضوں کو دین سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ اور بتوفیق الٰہی اس کے احکام کو لوگوں تک ان کی ذہنی و فکری رسائی کے مطابق باہم پہنچاتے ہیں اور دین کی مختلف جہات جو ناقص و لادینی عقل کے مطابق ناقابل عمل اور قدیم نظر آتی ہیں انہیں وہ اپنے خاص منہج و اسلوب اور منطقی و تحقیقی انداز کے ساتھ قابل عمل صورت میں پیش کرتے ہیں۔ جن سے لوگوں کے اذہان و قلوب پر چھائے حجابات یکسر زائل ہو جاتے ہیں۔ اور دین اسلام قابل عمل و رشد دین نظر آتا ہے۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر زمانے میں دین کی ایسی خدمات دینے کے لیے اللہ رب العزت ایک ہستی مبعوث فرماتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ یَبْعَثُ لِـِهٰذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُـجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا.

بے شک اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

(رواہ أبو داود، رقم الـحدیث: 4291)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر سو سال بعد یعنی ہر صدی ہجری کے آغاز میں ایک باوقار، عظیم اور تجدید کی جملہ خوبیوں سے موصوف شخصیت ظاہر ہوتی ہے جو اللہ جل مجدہ کے دین کی تجدید فرماتی ہے۔ اور دین اسلام کے عالمی سطح پرفکری و عملی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر پڑی تشکیک کی غبار کو زائل کرنے اور بحال کرنے کی لازوال اور دنگ کرنے والی کاوشیں بروئے کار لاتی ہے۔ جس سے احیائے دین ہوتا ہے اور عالم اسلام کو تقویت اور فکری و علمی مضبوط کمک حاصل ہوتی ہے۔

جب ہم طلوع اسلام سے لے کر دور حاضر تک کی اسلامی تاریخ پر عمیقانہ اور محققانہ نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف صدیوں میں مجددین تشریف لائے انہوں نے دین اسلامی کی مٹتی اقدار کی تجدید و احیاء فرما کر اس عظیم فریضہ حق کو ادا کرنے کی کما حقہ مساعی مبارکہ اور جہود شریفہ سر انجام دی ہیں۔

اگر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ما بعد زمانے پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں بآسانی علم ہو جاتا ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں اسلام کی فتوحات دن رات وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہیں تھیں۔ دین اسلام میں فوج در فوج لوگ شامل ہو رہے تھے یہ جزیرہ عرب کی حدود سے نکل کر ایشیاء اور دوسرے براعظموں تک تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات کو لوگ یاد کرتے جارہے تھے اور اپنی اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق مصادر اسلام سے استفادہ کرتے۔ لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلامی احکام و شریعت کو ایک منظم صورت میں پیش کیا جاتا۔ چنانچہ اس ضرورت اور تقاضا کو پورا کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے جس ہستی کا انتخاب فرمایا وہ حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔

آ پ نے صحابہ کرامؓ اور جلیل القدر تابعین سے اپنی جھولی کو علوم و فنون سے بھرا۔ تقویٰ و زہد ائمہ اہل بیت اطہار کے علاوہ کثیرجلیل القدر ہستیوں سے حاصل کیا۔ اور اس عظیم فریضہ کی ادا ئیگی کے لیے میدان عمل میں آگئے۔ مسند تدریس و تعلیم پر فائز ہوئے اورآپ نے لاتعداد مجتھدین، آئمہ و فقہاء تیار کیے۔ آپ نے عظیم الشان فقہی مذہب کی بنیاد رکھی۔ دین کے احکام کو عبادات و معاملات کی صورت میں منظم اور مرتب کیا۔ چنانچہ آپ نے دور تابعین کے اس تقاضے کو پورا کیا۔ اب قیامت تک یہ زمانہ دوبارہ نہیں دوہرایا جائے گایہ معاملات، احوال اور ظروف دوبارہ جنم نہیں لیں گیاور نہ ہی اس طرح کی کوئی دوسری شخصیت کی ضرورت پڑے گی جو تدوین فقہ کا کام کرے۔

آپ نے وقت کے تقاضوں اور دینی ضروریات کو بتوفیق الٰہی پورا کرتے ہوئے احکام شریعت اسلامیہ کی ترتیب و تدوین کا فریضہ انجام دیا۔ کیونکہ آپ کی حکمت و بصیرت کا کوئی مد مقابل اورہم پلہ نہ تھا۔ چنانچہ آپ اس عظیم کارنامے کی بنیاد ڈالنے اور اسے سرانجام دینے کی وجہ سے امام اعظم کے لقب سے مشہورہوئے۔ بعد ازاں جنہوں نے بھی فقہ کے میدان میں اپنی اپنی کاوش کی اس کی تدوین، اصول، قواعد اور باقی حوالوں سے جو جو خدمات سر انجام دیں وہ سب اپنے مرتبے اور رتبے کے لحاظ سے اہم تو تھیں لیکن تاریخ دوبارہ امام اعظم کوئی پیدا نہیں کرسکی۔ اسی طرح فقہ و شریعت کی دنیا میں اب صرف و صرف ایک ہی ہستی امام اعظم کہلائی ہے اور تاقیامت وہی امام اعظم رہے گی۔

اگر روحانیت و تصوف کی دنیا کو دیکھا جائے تو چھٹی صدی ہجری میں جب تصوف کی قدریں کمزور ہو رہیں تھیں اور اخلاق و سلوک کے پیروکاروں کے لیے ایک مضبوط مرکز کی ضرورت تھی اللہ رب العزت کے فضل و کرم کی بدولت وہ مرکز سرزمینِ بغداد پر قائم ہوا۔ جس کے بانی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپؒ حسنی و حسینی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حسنین کریمین علیہما السلام کے فیوضات کریمہ سے فیض یافتہ تھے آپ نے روحانیت و طریقت کے باب میں مجاہدہ و تزکیہ کے مراحل سے گزرتے ہوئے فقید المثال مقام و مرتبہ حاصل کیا۔ بنا برایں آپ کو بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذن خاص عطا ہوا اور آپؒ روحانیت و طریقت کے سلاسل کے امام و مرجع کے شرف سے سرفراز ہوئے۔ بلکہ آپ سید الأولیاء اور سردار ی مقام و مرتبہ پر فائز ہوئے۔ یہ وہ عظیم اذن عطا ہے جس کے ذریعے تمام روحانی مسالک اور اولیاء کو مراتب ولایت پر حضور شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ذریعے فائز کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر آپؒ اپنے زمانے میں غوث اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے۔ کیونکہ طریقت ولایت کو تقسیم کرنے کے لیے جب ایک قطب ربانی اور ولی کامل کی ضرورت تھی تو اس وقت کے تقاضا کو جس ذات بابرکت نے پورا کیا وہ ذات حضور شیخ عبدا لقادر جیلانیؒ کی تھی۔ لہذا اب نہ کوئی ایسے ظروف اور احوال دوبارہ دہرائے جائیں گے اور نہ ہی یہ اذن خاص کسی دوسری ہستی کو عطا ہوسکے گا۔

اسی طرح اسلام کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ چودہ صدیوں میں مجددین رحمۃ اللہ علیہم تشریف لاتے رہے اور اپنے زمانہ کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق دین اسلام کی تجدید اور احیاء بتوفیق الٰہی فرماتے رہے۔ یاد رہے کہ ہر ابتدائی صدی میں مابعد صدی کی نسبت تجدید و احیائِ دین کا دائرہ کار محدود، تقاضا اور ضرورت کم تھی لیکن پندرہویں صدی ہجری کی نسبت ان جملہ زمانوں میں تیز رفتار سفری سہولتیں بھی میسر نہ تھیں اور نہ ہی سائنسی ترقی و ایجادات عروج پر تھی اور نہ ہی دین اسلام کا زوال و انحطاط کلی جہات پرمشتمل تھا۔

پندرہویں صدی ہجری میں جب ہم دین کے کلی زوال و انحطاط کو دیکھتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس ہمہ جہتی زوال کے خاتمے اور احیائے دین کے لیے کسی ہمہ جہت مجدد دین و ملت کی ضرورت درکار تھی۔ جو زمانہ کے تغیرات سے بخوبی آگاہ ہو اور جدید علوم و فنون پر گہری نظر رکھتا ہو۔ ساتھ ساتھ سائنسی اور جدید ترقی سے استفادہ کرنے کا فقید المثال ملکہ بھی رکھتا ہو۔ اللہ رب العزت نے ان تمام اوصاف سے مزین حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی پر وقار اور باعمل ہستی کی صورت میں عالم اسلام کو اس نعمتِ اعلیٰ سے سر فراز فرمایا۔ جو بیک وقت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہی بصیرت و علم کے وارث اور حضور غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی و فکری میراث کے امین بھی ہیں۔ مذکورہ بالا اوصاف کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی ایک ہمہ جہت اور مجدد اعظم ہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہوگا۔ ذیل میں آپ کی شخصیت میں موجود کثیر تجدیدی خوبیوں میں سے چند ایک خوبیوں اور علامات کا مختصراً تذکرہ پیش نظر ہے۔

مجدد کی اہم علامتیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ہر صدی ہجری میں ایک عظیم الشان اور عالی مرتبت ہستی کا مرتبہ تجدید پر فائز ہونا نصوص سے ثابت شدہ امر ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ یَبْعَثُ لِـِهٰذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُـجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا.

بے شک اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

(رواہ أبو داود، رقم الـحدیث: 4291)

سمعت أحمد بن حنبل یقول یروی فی الحدیث النبی إن الله یَمُن علی أهل دینه فی رأس کل مئة سنةٍ برجلٍ من أهل بیتی یبین لهم أمردینهم.

اس حدیث مبارکہ پر حضرت شیخ الاسلام ابو اسماعیل الھروی اپنی کتاب میں تعلیقاً اپنے زمانے سے قبل مجددین کے ناموں کا تذکرہ فرماتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں:

وانی نظرت فی مئة سنة؛ فإذا هو رجل من آل رسول الله عمر بن عبد العزیز، وانی نظرت فی المئة الثانیة فإذا هو محمد بن إدریس الشافعی.

میں نے پہلی صدی ہجری میں اس حوالے سے دیکھا تو مجھے آل رسول کے چشم و چراغ حضرت عمر بن عبد العزیز مجدد نظر آئے۔ اور جب دوسری صدی ہجری میں دیکھا تو مجھے حضرت محمد بن ادریس الشافعی مجدد نظر آئے۔

(ابو اسمـاعیل الهروی، ذم الکلام وأهله، ج: 4، ص: 268)

یاد رہے کہ مجددین کی پہچان اور شناخت ان کی ذات میں موجود اہم تجدیدی خوبیوں سے ہی ہوتی ہے کیونکہ شریعت اسلامی میں ان کے اسماء کا ذکر موجود نہیں ہے لہذا ابتدائے اسلام سے لے کر تاحال جتنے بھی مجدد تشریف لائے ہیں سب کی پہچان اور شناخت ان کی تجدیدی کاوشوں سے ہی ہوئی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ اہل اخلاص و محبت ان کے ساتھ پہلے بھی تعاون و محبت کرتے رہے اور قیامت تک کرتے رہے گے۔ ذیل میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ذات میں موجود مجدد ہونے کی چند اہم علامتیں پیش کی جاتی ہیں۔

علم میں ثقاہت و پختگی ہونا

ایک قابل تقلید شخصیت کے اہم پہلوؤں میں سے ایک پہلو علمی پختگی اور ثقاہت کا ہے جب تک کوئی شخصیت امت مسلمہ کو ہر گوشے میں رہنمائی نہیں فرما سکتی اس وقت تک وہ شخصیت اس معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی دین کی مٹتی ہوئی قدروں کا احیا ء کر سکتی ہے۔ اور علم وہ عظیم ورثہ ہے جس سے اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء کے سینوں کو منور فرمایا پھر انہیں اعلان توحید کا حکم دیا۔ علم ہی وہ عظیم خوبی ہے جس سے اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا مرتبہ دیا بلکہ اللہ رب العزت نے تعلیم کو فریضہ نبوت میں سے شامل فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیهِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ.

اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔

(البقرة، 129: 02)

چونکہ مجددین طریق نبوت پر چل رہے ہوتے ہیں اس لیے علم کے وصف سے مزین ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہم اس تناظر میں حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی شخصیت کو دیکھیں تو اس بات کا ہمیں ہر طرف سے اقرار ملتا ہے کہ آپ کا علم مثلِ بحر ہے۔ آپ کے دلائل و براہین قرآن و حدیث سے مستنبط ہوتے ہیں اور اس زمانے میں آپ طریق نبوت پر اپنی کاوشوں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ مجدد کی جو ایک علم کی خوبی ہے وہ آپ کی شخصیت میں کلیتاً موجود ہے

علم میں تفقہ کے بغیر دین کی بگڑی ہوئی اقدار اور قلب و باطن کے امراض کی تشخیص ناممکن ہے۔ عصر حاضر میں حضرت شیخ الاسلام کی عملی پختگی اور خدمات کے اپنے بیگانے سب معترف ہیں۔ بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری ہی مجدد قرن الخامس عشر ہیں۔

عمل صالح کا پیکر ہونا

مجددِ وقت کا صالح و متقی ہونا ایک اہم و ضروری شرط ہے بلاشک و شبہ دین اسلام نیک اعمال کو اپنانے اور برے اعمال سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ برے اعمال و عادات کسی بھی انسان کی شخصیت و ذات میں نہ نکھار پیدا ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی استقامت و مداومت اور بلند ہمتی جیسی خوبی آتی ہے۔ بلکہ ارتکاب منہیات و محرمات، برائی، سستی، کاہلی اور نافرمانی کا سبب بنتی ہے۔ جبکہ اعمال صالحہ کرنے سے انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور ان سے شخصیت ِانسان میں استقامت، مداومت اور بلند ہمتی جیسی لازوال خوبیاں رونماہوتی ہیں۔ اور وہ بڑے سے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا جذبہ اور طاقت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح شیطانی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے انسان کی طبیعت میں صالحیت کا عنصر جتنا قوی و بالا ہوتا ہے اتنی ہی کامیابی و فتح زیادہ ہوتی ہے۔

تجدید دین کے لیے مجدد پر سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ برے اعمال و عادات اور ان کی فکر کا قلع قمع کرے اور نیکی و خیر کی طرف لوگوں کو راغب و متوجہ کرے اور ان کے اندر جستجوئے حق کی چنگاری لگائیں۔ تو جب تک انسان خود صالحیت کے بلند مرتبے اور مقام پر فائز نہیں ہوگا اس وقت تک وہ تجدید کے فریضہ پر فائز ہونے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اگر اس رو سے حضرت شیخ الاسلام ٖڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی ذات مبارکہ کا جائزہ لیا جائے تو آپ صالحیت کے منارہ نور نظر آتے ہیں۔ بچپن سے لے کر تاحال آپ کی زندگی اللہ کی فرمانبرداری آقا علیہ السلام کی محبت و عشق اور نیک اعمال کو خود اپنانے کے ساتھ ساتھ چہاردانگ عالم کے دین سے دور ہوئے لوگوں کو ایک عظیم الشان فکر و نظر عطا فرما رہے ہیں۔ لوگوں کے من کی اجڑی بستیوں کو اعمال صالحہ کے نور سے روشن و منور فرما رہے ہیں۔ اور آپ اس خوبی سے متصف ہیں۔

حکمت و بصیرت کا اعلیٰ درجہ پانا

حکمت و بصیرت مجددین کی امتیازی خوبی ہے اور یہ نبوت کے چہارگانہ فرائض میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یُؤتِی الْـحِکْمَةَ مَن یَشَاءُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ.

جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔

(البقرة، 2: 269)

حکمت ایک ایسی نعمت ہے جو نہ صرف انسان کے لیے بھلائی کا سبب ہے بلکہ اگر یہ نعمت کسی ایک کو حاصل ہو جائے تو دوسرے لوگ بھی اس شخص سے بھلائی حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ رب العزت نے حکمت کو اپنے برگزیدہ بندوں میں تقسیم فرمایا تاکہ جمیع مخلوق اس سے فیض یاب ہو سکے۔ قرآن حکیم حکمت کا سب سے بڑا خزانہ ہے، لیکن اس کے اندر حکمت کے موتی تلاش کرنے کے لیے غور و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عطائے خاص اللہ رب العزت نے مجدد دین و ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کو بھی عطا فرمائی ہے۔ آپ نے فہم و تدبر کے ساتھ نہ صرف موجودہ مسائل کا قرآن و سنت سے حل پیش کیا بلکہ گہری بصیرت اور حکمت کا استعمال کر کے آئندہ آنے والے فتنوں کا بھی سدباب کرنے کی کوشش کی۔

اللہ و رسول سے والہانہ محبت و عشق ہونا

اللہ تعالیٰ سے والہانہ محبت اور ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنائیت مجددین کی نمایاں صفات میں سے الگ صفت اور خوبی ہے۔ اہلِ محبت کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جس شے سے محبت ہو اسے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے۔ محبوب جس قدر صاحبِ عظمت و شان اور حسن و جمال کا پیکر ہو گا محب کی زبان پر اسی قدر اس کا ذکر کثرت سے آئے گا۔ جس بندے کو محبتِ الٰہی کی کیفیت نصیب ہو جائے اس کی دیوانگی اور اس کے جوشِ محبت کا عالم کیا ہو گا؟ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبین کے طرز ِطریق کو یوں بیان فرماتا ہے:

وَالَّذِینَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ.

اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔

(البقرة، 2: 165)

شدید اور اپنی محبت کے بارے میں اشد فرمایا۔ شدید کا معنیٰ ہے کہ سخت اور اشد کا معنیٰ سب سے زیادہ سخت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن سے تمہارا دل چاہے، محبت کرو، شریعت منع نہیں کرتی، لیکن سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت سے دعا مانگی ہے فرمایا:

اللَّهُمَّ اجْعل حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِن نَفسی، وأَهْلی.

اے اللہ! جتنا میں اپنی جان سے پیار کرتاہوں میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں اپنی ذات کی محبت میرے دل میں اس سے بھی زیادہ ڈال دے۔ اور جتنا مجھے اپنے گھر والوں سے پیار ہے اس سے زیادہ مجھے اپنی محبت عطا فرما۔

(جامع الترمذی، رقم: 3490)

تجدید احیائے دین کا کام عشق ومحبت الٰہی میں محو ہو کر ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مجددین کے دل عشق الٰہی اور عشق رسول سے لبریز رہتے ہیں۔ کیونکہ اطاعت کے لیے محبت کا ہونا شرط ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّهُ.

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔

(آل عمرن، 31: 03)

مجدد وقت حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کا دل نہ صرف عشق الہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار رہتا ہے بلکہ آپ نے محبت و عشق کی یہ چنگاڑی نوجوانوں کے دلوں میں روشن کی ہے۔ آپ نے عشق رسول کی بجھتی ہوئی شمع کو ہر گھر میں فروزاں کیا۔ حضور سے تعلق عشق کو بحال کرنے کے لیے میلاد النبی اور صلاۃوسلام کا نہ صرف اہتمام فرمایا بلکہ اس مقصد کے لیے گوشہ درود کا قیام بھی عمل میں لائے۔

ایک سچے عاشق کو محبوب سے پیار ہوتا ہے بلکہ محبوب کی طرف جانے والے رستے بھی پیارے ہوتے ہیں کہ اس کا محبوب دوسرے سرے پر اس کا منتظر ہوتا ہے۔ دشواریوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سر مستی کے عالم میں قدموں کا بڑھتے چلے جانا اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ اس راہ کا مسافر منزل آشنا ہے اور سفر کی قدر وقیمت اور منزل کی عظمت سے آگاہ ہے۔

اخلاق حسنہ کا پیکر ہونا

ایک حقیقی مجدد کی اہم اور عظیم نشانی و علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اخلاق انبیاء سے متصف ہو۔ کیونکہ جہاں احیائے دین کے مختلف پہلو ہیں وہاں پر معاشرے میں روبہ زوال اخلاقی اقدار بھی ہیں جن کی احیاء سنت انبیاء کی روشنی میں کرنا ضروری ہیں۔ انبیاء ا علیٰ اخلاقی محاسن سے مزین ہوتے ہیں اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ.

اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔

(القلم، 04: 68)

چنانچہ ہر صدی میں مجددین نے نہ صرف اخلاقی اقدار کا احیاء کیا بلکہ خود اعلیٰ اخلاق کو اپنا کر امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مثال پیش کی اور اپنی زندگیوں کو اخلاق انبیاء کا عکس و آئینہ بنایا پھر معاشرے میں ان مٹتی ہوئی اقدار کو زندہ کرنے کی جدوجہد کی۔ ایسے ہی آج کے دور میں جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں آپ کی ذات اخلاق و آداب کا مرقع نظر آتی ہے۔ آپ کی امانت، دیانت، شرافت، نجابت اور عوام الناس کے ساتھ اچھا برتاؤ آپ کی شخصیت کے ایسے رخ ہیں جو ایک مجدد کے لیے لازم ہیں۔

فقر و استغناء کے مقام پر فائز ہونا

مجددینِ دین و ملت کے امتیازی اوصاف میں سے ایک اہم وصف ان کا استغنا اور فقر و غیور ہے۔ وہ ناساز گار حالات میں بھی اصلاح وارشاد کا صبر آزما فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنا دامن کبھی حرص اور لالچ سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ انہوں نے جو بھی خدمت دین انجام دی بلامعاوضہ انجام دی۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ کو پیشہ نہیں بلکہ فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ اس لئے ان کی نظر لوگوں کی جیبو ں پر نہیں ان کے دلوں پر ہوتی تھی چو نکہ انہیں کسی سے کوئی دنیاوی مفاد اور غرض نہ ہوتی تھی اس لئے وہ کلمہ حق کہنے سے نہ لرزتے تھے، نہ گھبراتے تھے۔ مجددقرن الخامس عشر حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی زندگی بے نیازی اور فقر و استغنا کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ نے دین اسلام کی خدمت کے عوض میں کبھی کوئی چیز وصول نہ کی۔ اس معاملہ میں بڑی سے بڑی پیشکش کو بھی ٹھکرادیا۔ آپ کے استغنا کا یہ عالم ہے کہ آپ نے اپنی لکھی ہوئی تصانیف کی قیمت بھی تحریک منہاج القرآن کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ آپ کے اسی بے غرض عمل کی اقبال کیا خوب ترجمانی کرتے ہیں:

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

بہادری و شجاعت کا مالک ہونا

مجدد وقت کو اعلیٰ ہمتی اور بہادری و شجاعت کا پیکر ہونا لازمی ہوتا ہے جیسے اللہ رب العزت نے انبیاء علیہم السلام کو بہت سے اوصاف سے نوازاہے وہاں بہادری و شجاعت کا وصف بھی خوب عطا فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

کَانَ النَّبِیُّ صلی الله علیه وآله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر حسین، سب سے بڑھ کر سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔

(بخاری، رقم الحدیث: 5686)

ہر زمانہ میں اعدائے اسلام کے سامنے سینہ سپر ہونا اور کفر و باطل کے سامنے ڈٹ جانا مجدد وقت کے ایمان کا وصفِ خاص ہے۔ کیونکہ تجدید دین کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے مجد دکا شجاع و بہادر ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس نے زمانہ کے فراعین سے ٹکرانا ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ نے اپنی جدوجہد کے بر سراقتدار طبقات کی اصلاح کا آغاز کیا تو ان کو بادشاہ وقت کی طرف سے جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے نہایت جوانمرادی اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ عصر حاضر میں اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی شخصیت کو دیکھا جائے تو آپ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ حتی کے دور حاضر کی فرعونی طاقتیں آپ کی جان کے درپے ہوئیں اور آپ کے لیے دشواری پیدا کرتی رہیں مگر آپ کو تجدیدواحیائے دین کے اس عظیم کام سے نہ روک سکیں۔ آپ نے ترویج و اشاعت ِدین کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔ حکومتی معاملات ہوں یاعوامی حلقوں میں اصلاح کا معاملہ ہو آپ ہر سطح پر بلاتکلف لوگوں کو متنبہ کرتے رہتے ہیں اور ان کی جانب سے مزاحمت کو خاطر میں نہ لائے۔

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

مذکورہ بالا مختصر بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو اوصاف حمیدہ اور خوبیاں ایک مجدد کی ذات میں موجود ہونا چاہیں وہ تمام حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی ذات میں بدرجہ تام پائے جاتے ہیں اور جن صفات وعلامات کی بنا پر ایک مجدد کی شناخت ہوتی ہے وہ تمام بھی آپ کی ذات شریفہ میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی عالمی سطح پر بحالی دین کے لیے مساعی جلیلہ، فکری و اجتہادی کارنامے، صالحیت، توکل و استغنا اور اصلاح امت کے لیے لازوال کاوشیں بھی آپ کے مجدد القرن الخامس عشر ہونے پر دال ہیں۔

اللہ رب العزت آپ کا سایہ امت مرحومہ پر تا دیر رکھے اور آپ کو صحت و سلامتی والی عمر دراز عطا فرمائے اور ہمارے قلوب و اذہان کو آپ کے فیوضات مبارکہ سے لمحہ لمحہ مستفیض فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین واللہ اعلم بالصواب۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء

تبصرہ