اقبال کا نظریہ وطنیت اور بانگ درا

حلیمہ سعدیہ

اقبال کی ابتدائی شاعری میں جو جذبہ بھرپور انداز میں سامنے آتا ہے وہ وطن پرستی کا جذبہ ہے اگرچہ اس دور کی شاعری میں قدرت کے حسن کی پرستش اور روایتی عشقی مضامین کی جھلک بھی موجود ہے لیکن جو رنگ سب سے زیادہ اثر انگیز ہے وہ وطن سے محبت کا ہے۔

ہر انسان کی طرح اقبال کو بھی اپنے وطن ہندوستان سے گہری محبت تھی چنانچہ ان کی بعض نظمیں مثلاً ’’تصویرِ درد‘‘ ’’قدانہ ہندی‘‘ ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ وغیرہ وطن پرستی کے بہت نفیس جذبات سے بھری پڑی ہیں۔ بانگ درا جو اقبال کا اولین شعری مجموعہ ہے اس کا آغاز ہی ایک ایسی نظم سے ہوتا ہے جو وطن پرستی کے بلند پایہ جذبات سے بھرپور ہے ’’ہمالہ‘‘ جو بانگ درا کا حصہ بننے سے پہلے ہی خاصی شہرت حاصل کرچکی تھی میں اقبال کہتے ہیں:

امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستان ہے تُو
پاسباں اپنا ہے تُو دیوارِ ہندوستان ہے تُو

مطلعِ اول فلک جس کا لہو وہ دیواں ہے تُو
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء، ص: 22)

اقبال نے ابتدائی دور میں ہندو مسلم اتحاد اور جذبہ وطیت پر بڑی پُرجوش نظمیں لکھیں اور ان نظموں کی وجہ سے اقبال مسلمان اورہندو دونوں میں خاصے مقبول ہوگئے۔ اقبال کو اپنے ہم وطنوں کی بے علمی تنگ نظری اور تعصب سے بہت افسوس ہوتا تھا چونکہ اقبال بہت ذہین اور باریک بیں انسان تھے اس لیے وہ ہندوستانیوں میں جڑ پکڑ جانے والی خامیوں سے آگاہ تھے اور وہ انہیں محبت اور امن و آشتی کے پیغام کے ساتھ یہ تلقین بھی کرتے تھے کہ ہندوستانی عوام حقیقت شناس اور بلند خیال ہوجائیں اور مل جل کر ترقی کے لیے کوشش کریں۔

اگرچہ بعد میں اقبال کے خیالات میں بعض حوالوں سے تبدیلی آگئی لیکن قیام یورپ سے پہلے لکھی گئی نظمیں اقبال کی وطنی محبت کی مظہر ہیں مثلاً ’’تصویر درد‘‘ میں وہ ہندوستان کی قسمت پر ان الفاظ میں اظہار افسوس کرتے ہیں:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء)

’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ ایسی نظم ہے جس کا ایک ایک لفظ شاعر کے وطن پرستانہ جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اس نظم میں اقبال کی وطن پرستی اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی ہے۔

یونانیوں کو جس نے حیراں کردیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء، ص: 87)

اس نظم کا آخری بند خصوصاً اپنی مثال آپ ہے کہ اس میں اقبال نے نہایت عمدہ انداز میں اپنے وطن کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اقبال نے اس دور میں ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو گرما دیا تھا اور اقبال کی نظمیں جو وطن پرستی پر مبنی تھیں عوام میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ پڑھی اور سنی جارہی تھیں اس حوالے سے خلیفہ عبدالحکیم اپنی تصنیف فکر اقبال میں لکھتے ہیں:

’’اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے: ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا، بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے‘‘۔

(خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر، فکر اقبال، بزم اقبال لاہور، طبع سی پنجم، جون 1983ء، ص: 38)

اقبال کی تصانیف میں بھی وطن دوستی کے لطیف جذبات موجود ہیں مثلاً ’’جاوید نامہ‘‘ اور مثنوی میں وطن دوستی کے جذبات کی عکاسی بھی ہے۔ خاص طور پر ’’جاوید نامہ‘‘ کا وہ حصہ جس میں اقبال نے ’’قلزم خونیس‘‘ روح ہندوستان اور اس کے نالہ و فریاد کی تصویر کشی کی ہے اور میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کو ’’ننگ آدم‘‘ ’’ننگ دیں‘‘ ’’ننگ وطن‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی روحوں کو اس قدر ناپاک قرار دیا ہے کہ دوزخ بھی انہیں قبول نہیں کرتی۔

گویا اقبال کے نزدیک وطن سے غداری ناقابل تلافی اور انتہائی مذمت انگیز جرم ہے۔ اقبال نے ایسے مجرموں کو قلزم خونیس میں مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔ اقبال کا نظریہ یہ تھا کہ ہر فرد کو اپنے وطن ولادت سے تعلق اور نسبت ہے اور اس اعتبار سے اس کو اپنے وطن سے محبت ہونا ایک فطری امر ہے۔ ’’ہندی ترانہ‘‘ لکھنے کے وقت اقبال کے خیالات کی بنیاد یہی نظریہ تھا۔ بقول خلیفہ عبدالحکیم:

’’ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا‘‘۔

(خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر، فکر اقبال، بزم اقبال لاہور، جون 1983ء، ص: 38)

وطنیت کا وہ نظریہ جو کہ مغربی اقوام میں موجود تھا اقبال اس کے شدید مخالف تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ جب ’’وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔ اقبال وطن کو بت بناکر پوجنے کے خلاف تھے اور اسے اسلام کی عالمگیر روح کے منافی خیال کرتے تھے۔ بانگ درا میں شامل نظم ’’وطنیت‘‘ میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے ان خیالات کا اظہار کیا ہے:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گِر کاشانۂ دین نبویؐ ہے

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء، ص 160)

چنانچہ اس نظم میں اقبال نے ان برے نتائج کی نشاندہی بہت واضح انداز میں کی ہے اور خصوصیت کے ساتھ امت مسلمہ کو اس وطنیت کے بت کو توڑ ڈالنے کی ہدایت کی ہے۔ حب وطن کے حوالے سے اقبال کی ان نظموں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ وطن پرستی کا زمانہ اقبال کی شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا لیکن خیالات کی گہرائی افکار کی بلندی اور جذبات کی شدت اس دور میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ نظم ہمالیہ میں ہمالیہ کی عظمت بیان کرچکنے کے بعد اقبال اس کی سیاسی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے اور بڑے جوش و خروش سے کہتے ہیں:

امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو
پاسباں اپنا ہے تُو دیوارِ ہندوستاں ہے تُو

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء، ص: 22)

’’صدائے درد‘‘ جو اقبال کی طویل نظم ہے اور ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اس نظم میں اقبال نے وطن عزیز کی خراب حالی کا نقشہ کھینچنے کے ساتھ ساتھ اس کے مرض کی تشخیص کی ہے اور اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے بہت اثر انگیز انداز میں جمود و تعطل کے باعث آنے والے دور کی خوفناک تصویر پیش کی ہے اور اہل ہند کو محتاط ہونے کی ترغیب دی ہے:

رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1982ء)

ہندوستان میں بپا ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے اقبال بہت دل گرفتہ تھے وہ ہندوستان کو سربلند اور رفیع المرتبت دیکھنا چاہتے تھے لیکن جب تک باہمی انتشار موجود تھا ایسا ہونا ممکن نہ تھا چنانچہ ہندوستان کی مختلف اقوام اور خاص کر ہندو مسلم تعصب سے متاثر ہوکر نہایت پُر اثر انداز میں اقبال نے کہا:

دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پُرنم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

(محمد اقبال، ڈاکٹر، بانگ درا، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع سی نہم، 1982ء، ص: 73)

وطن سے اظہار عقیدت اقبال نے جن جذبات و نظریات کے تحت کیا وہ وطنیت کے مغربی تصور سے یکسر مختلف ہے۔ مغرب کا تصور قومیت، Nationalism جس کی بدولت وطن کا تصور پیدا ہوا اس کی بنیاد زبان، رنگ، نسل اور محدود خطہ زمین (ملک) پر ہے اس تصور سے قومیت کی ایک محدود صورت پیدا ہوتی ہے جو عالمگیر انسانی برادری کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’وطنیت اور قومیت کا تصور اس وطن دوستی کے تصور سے جداگانہ چیز ہے۔ مغرب نے وطنیت کو اجتماعی زندگی کا ایک نظریہ قرار دیا ہے اور ان کے احوال میں یہ بات کچھ ضروری ہوگئی تھی۔۔۔ مذہب کی علیحدگی سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا اسے انہوں نے اس طرح پُر کرنا چاہا۔۔ لیکن انجام کار کیا ہوا۔۔۔ ان میں نسلی، لسانی اور وطنی اختلافات کا ایک غیر محدود سلسلہ قائم ہوگیا‘‘۔

(ایس ایم منہاج الدین، ڈاکٹر، افکار و تصورات اقبال کاروان ادب، ملتان بار اول، 1985ء، ص: 168۔169)

اقبال کے نزدیک وطنیت کا یہ تصور مغربی تہذیب کا پیدا کردہ ہے جو عالم انسانیت کو لادینیت، دہریت، اقتصادی کشمکش اور بدامنی میں مبتلا کررہا ہے۔ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’یورپ کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے۔ جب یورپ کی دینی وحدت پارہ پارہ ہوگئی تو ان کو اس بات کی فکر ہوئی کہ قومی زندگی کی اساس وطن کے تصور سے تلاش کی جائے۔ اس کا کیا انجام ہوا اور ہورہا ہے‘‘۔

(ایس ایم منہاج الدین، ڈاکٹر، افکار و تصورات اقبال، کاروان ادب ملتان، صدر، 1985ء، ص: 169)

گویا مغرب کے تصور وطنیت اور قومیت کو اقبال انسانیت کے لیے خطرہ عظیم سمجھتے ہیں۔ خطبہ صدارت مسلم کانفرنس، منعقدہ لاہور 1932ء میں اقبال نے کہا:

’’میں یورپ کے پیش کردہ نیشلزم کا مخالف ہوں اس لیے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آرہے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لیے شدید ترین خطرات کا سرچشمہ ہیں‘‘۔ (ایضاً)

اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقاء میں یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے 1905ء سے 1908ء تک یورپ میں جو قیام کیا اس دوران انہوں نے وطنیت اور قومیت کے مسائل پر غور وفکر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ مسیحیت کا پرچار کرنے والی اقوام آپس میں لڑ جھگڑ رہی ہیں اور مسلمان ممالک بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ چنانچہ اقبال کا تفکر اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمانوں کو ان کی جداگانہ حیثیت کا احساس دلانا اشد ضروری ہے اور پھر اقبال نے وطنیت کی محدود فضاؤں سے نکل کر عالمگیر قومیت کا پیغام دیا اور یہ پیغام اقبال کے کلام نظم و نثر کا بنیادی عنصر بن گیا۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2020ء

تبصرہ