شعائر اللہ کی عظمت و تعظیم

ڈاکٹر فرخ سہیل

ذٰلِکَ وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.

(الحج، 22: 32)

’’یہی (حکم) ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)‘‘۔

شعائر اللہ کی عظمت اور تعظیم و تکریم کو ملحوظ رکھنے والا اللہ کے نزدیک ایسا مقام رکھتا ہے کہ پروردگار اسے متقی کے نام سے یاد کرتا ہے اور حج کے مناسک کے ساتھ جو شعائر منسوب ہیں ان میں صفا و مروہ کی پہاڑیاں اور قربانی کے جانور شامل ہیں اور ان میں سے مذکور پہاڑیاں اگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے عام پتھروں کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن اللہ نے انہیں شعائر اللہ صرف اس لیے قرار دیا کہ ان کی نسبت پروردگار کے منظور نظر محبوب بندوں کی طرف ہے کہ جن کے ساتھ عشق الہٰی کی داستان منسوب ہے اور ان محبوبان پروردگار میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام جو کہ جدالانبیاء کہلائے ہیں داستان عشق خداوندی اور پروردگار کی طرف سے امتحان و آزمائش میں اس طرح پورے اترے کہ پروردگار پکار اٹھے کہ

یٰـنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰـمًا عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ.

(الانبیاء، 21: 69)

’’اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا‘‘۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی اگلی منزل پروردگار کا وہ حکم تھا جو ان کی ذات سے نکل کر ان کی زوجہ اور شیر خوار بیٹے پر بھی منطبق ہوا جس میں پروردگار نے اپنے محبوب بندے کو حکم دیا کہ اپنے شیر خوار بیٹے اور اپنی زوجہ کو بے آب و گیاہ ویرانے میں چھوڑ آئو اور اس عاشق الہٰی نے اس امتحان کو بھی کامیابی سے پاس کرلیا۔

اولاد ابراہیم اس وادی غیر ذی زرع میں پھلی پھولی اور پھر ایک مقام آیا کہ پروردگار نے اس وادی کو اپنے گھر کے لیے منتخب کرلیا اور خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر جاری ہوگئی ابراہیم علیہ السلام جب اس عمارت کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو ان کے نکلنے والی دعائوں کو اس طرح قبول فرمایا کہ ان کی نسل میں سے نبی آخرالزماں کو مبعوث فرمایا اور یوں کعبۃ اللہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔

جدالانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا اگلا امتحان اس وقت شروع ہوا پروردگار کی طرف سے حکم ہوا کہ میری رضا کی خاطر اپنے پیارے بیٹے کو میرے لیے قربان کردو اور اس قربانی کے حکم پر بھی باپ کے ساتھ ساتھ بیٹے نے بھی سرتسلیم خم کردیا اور یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ لازوال قربانی رب کے ہاں اس طرح مقبول و منظور ہوئی کہ پروردگار فرماتا ہے کہ

وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ. وَتَرَکْنَا عَلَیْهِ فِی ا لْاٰخِرِیْنَ.

(الصافات، 37: 107-108)

’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا۔‘‘

پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقرر کردہ حج کے طریقوں کو امت مسلمہ کے لیے بھی فرض قرار دیا اور دور جاہلیت کے مناسک اور حج کے طریقوں میں جو تحریف اور تبدیلی کی جانے لگی تھی ان تمام باطل رسوم کو یکسر پابندی عائد کرتے ہوئے دین ابراہیمی کی سنت کو نافذ کردیا اور فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حج کو فرضیت کے ساتھ رائج کردیا۔ جہاں تک حج کے مناسک و ارکان اور فرائض کی بجا آوری کا تعلق ہے تو اس میں جدالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو بنیادی اور مرکزی اہمیت حاصل ہے اور یہ دور بھی ابراہیم علیہ السلام کے نبوت کے دور سے شمار کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ آپ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جدالانبیاء کہلائے جس کی خصوصیت قابل ذکر ہے۔ آپ کی اولاد میں سے بنی اسرائیل بہت سے جلیل القدر انبیاء مبعوث ہوئے اور پھر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیa کی بعثت ہوئی جو کہ نبی بنی اسماعیل میں سے منتخب شدہ تھے اور یوں حج سے متعلق شعائر و مناسک تاریخی سفر طے کرتے ہوئے امت محمدی تک پہنچے۔

جہاں تک حج کے تمام مناسک کا تعلق ہے تو ان کا شمار شعائر اللہ میں ہوتا ہے جو کہ اس زمین پر اللہ کی مقرر کردہ نشانیاں ہیں اور ہم انسان جہاں پر اپنے بزرگوں کی نشانیوں سے محبت کرتے ہیں ان سے عقیدت رکھتے ہیں تو پروردگار کی نشانیاں تو بہت عظیم مرتبہ و مقام رکھتی ہیں۔ اور اسی بناء پر ہی پروردگار نے ان نشانیوں کی تعظیم کو دلوں کے تقویٰ کا مقام بخشا۔ اپنے پروردگار کی نشانیوں کی تعظیم کرنے والے مومن دل تقویٰ سے سرفراز ہوتے ہیں اور یہ عبادت کی عظیم معراج ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ اس کی مقرر کردہ نشانیوں کی بھی تکریم و تعظیم بجا لائے اور اس کے جواب میں پروردگار بھی اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے کہ میرے بندے صرف میرے احکامات ہی نہیں بجا لاتے بلکہ میری مقرر کردہ نشانیوں کی بھی تعظیم کرتے ہیں۔

اگر ہم حج سے متعلق شعائر اللہ کا جائزہ لیں تو ہم پر بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں پہنچ کر اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ لہذا انسان اپنے دنیاوی حلیے کو بدل کر دو بڑی چادروں کا لباس پہن لیتا ہے اور یہی سادہ لباس اس کے لیے سب سے پہلی نشانی بن جاتا ہے جس کا احترام اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ اس کا دل مکمل طور پر بارگاہ ایزدی میں جھک جاتا ہے اور پھر پروردگار کے اس حکم پر عمل پیرا ہونا اس کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ اب دنیاوی زیب و زینت اس کے لیے منع ہوچکی ہیں یہاں تک کہ اسے اپنے بال اور ناخن ترشوانے کی اجازت بھی نہیںملتی اور وہ لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتا گردو پیش سے بے خبر ہر حال میں پروردگار کی یاد میں محو ہوکر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے عرفات کے میدان میں جانا میدان حشرکی یاد دلاتا ہے اور پھر وہاں سے مزدلفہ میں رات بھر جاگنا یہاں تک کہ سونا بھی عبادت سے کم نہیں ہوتا۔ مزدلفہ کا قیام بندے کو اس کی اصلیت سے آگاہی کا پیغام دیتا ہے کہ کسی کو ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی کہ کون سورہا ہے کون جاگ رہا ہے اس کے اردگرد مرد ہیں یا خواتین وہ ان تمام محسوسات سے بے نیاز ہوکر اپنے دل کو اللہ کی یاد میں مستغرق کردیتا ہے۔ اسے اپنے چاروں طرف بس ایک ہی جلوہ نظر آتا ہے اور اپنے پروردگار کے حکم پر دیوانہ وار اپنے نفس کے شیطان کو کنکریاں مار کر کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ عشق و مستی میں دیوانہ وار خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے اور پھرصفا و مروہ کے درمیان تیز تیز چکر لگاتا ہے اور اس تمام عمل میں ایک لمحے کو بھی اس کی عقل اس کی عشق و سرمستی کے عمل کے درمیان حائل نہیں ہوتی اور اس سے اس وارفتگی پر سوال نہیں کرتی۔

اپنی ذات کو بارگاہ ایزدی میں مکمل طور پر ضم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں اس کا یہ عمل عبادت کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ انسان کے یہ تمام اعمال دراصل اللہ کی مقرر کردہ نشانیوں کی عظمت و تعظیم کی مثال بن جاتے ہیں اور اسے وہ فضیلت عطا ہوتی ہے کہ جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ

’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا چکر لگائے۔‘‘

حج کے دوران کیے جانے والے تمام اعمال ایسے ہیں کہ جن کا انسانی عقل اور فہم سے کوئی واسطہ نہیں اور ویسے بھی بظاہر عبادت سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیںہوتا لیکن پروردگار نے اپنے محبوب بندوں کی یاد میں انہیں اپنی نشانیاں قرار دیا جنہوں نے رب العزت کی خاطر لازوال قربانی کی مثال قائم کی تھی۔ پروردگار نے ان کی اس قربانی کو اپنی نشانیاں قرار دے کر امر کردیا اور اس عظیم قربانی کو ذبح عظیم قرار دیا۔

وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ. وَتَرَکْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ.

(الصافات، 37: 107-108)

’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا۔‘‘

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء

تبصرہ